صوبے کے لوگوں سے وعدہ کیا جائے کہ مائنس بلوچستان کی سیاست کا سلسلہ ختم کیا جائیگا٬لشکری رئیسانی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)سنیئر سیاستدان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کی حمایت کو اپنے مطالبات سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل جماعتیں اقتدار میں آئیں تو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے باضابطہ فعال کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔صوبے کے سیاسی عمل میں اداروں کی مداخلت ختم کی جائے گی۔بلوچستان کے لوگوں سے یہ وعدہ کیا جائے کہ آئندہ مائنس بلوچستان کی سیاست کا سلسلہ ختم کیا جائیگا۔جعلی صوبائی اسمبلی کے ذریعے ہونے والی قانون سازی کو ختم کرکے چہتوں کو الاٹ کئے گئے صوبے کے وسائل کی الاٹ منٹ کو منسوخ کی جائیگی۔بلوچستان ساحل کیساتھ ملک کا 60 فیصد ہے اس کو پاکستان کا 60 فیصد حصہ قرار دیا جائیگا۔محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان 1948 میں ہونے والے معاہدہ کو اس آئین کا حصہ بنایا جائے گا۔بلوچستان میں گرفتار خواتین سیاسی کارکنوں سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کرکے ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں اور اس کیلئے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے آواز بلند کی جائیگی۔یہ بات انہوں نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماں صاحبزادہ حامد رضا، سردار لطیف کھوسہ کے ہمراہ سروان ہاس میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس، عبدالرحیم زیارتوال سمیت دیگر بھی موجود تھے۔تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما صاحبزادہ حامد رضا صاحبزادہ حامد رضا نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے وفد نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی اور ان کے خاندان نے ہمیشہ پارلیمانی سیاست کی ہے ہم ان سے تعاون کی درخواست کرنے آئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی وہ آوازیں جو اپنے تحفظات کے باوجود آئین کو تسلیم کرتی ہیں ان قوتوں کو آن بورڈ لے کر ان کو اعتماد دلایا جائے کہ ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں آئندہ نہیں ہوں گی، الیکشن شفاف ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے لوگ اٹھائے جارہے ہیں یہ صرف بلوچ نہیں، دیگر تین صوبوں میں بھی ایسے ہی لوگ ہیں جیسے بلوچوں کے ہیں ان کے دکھ اور درد کو اپنا سمجھتے ہیں۔نوابزادہ لشکری رئیسانی نے ہماری باتیں سنیں اور اپنی بات بھی کی، جب ہم یہاں سے واپس جائیں گے تو وفاق میں بلوچستان کی آواز بن کر جائیں گے یہ ہمارا نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی سے وعدہ ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا بھرپور ساتھ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ دو روز سے بلوچستان میں موجود ہیں، چھ سات دہائیوں سے بلوچستان کا استحصال ہوا ہے، صوبہ کے وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے لیکن اس حق کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ آپریشن کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی گئی۔کھبی لوگوں سے وعدہ کرکے ان کو پہاڑوں سے اتار کر ان کو پھانسی دی گئی، جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے ہمسایہ ممالک سے تجارت میں رکاوٹیں حائل کی گئیں، بلوچستان میں ایک طویل عرصہ سے احساس محرومی موجود ہے اور یہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے، ریاست نے جو معاہدے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ کیے ان کی پاسداری ہونی چائیے۔1973 کے آئین پر اس کے روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا، پسند اور ناپسند کے تحت لوگوں کو الیکشن جتائے اور ہارائے گئے، عوام نے جن لوگوں کو مینڈیٹ دیا ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی سلامتی کے اجلاس کا بائیکاٹ اس لیے کیا کہ دہشت گردی اور امن وامان کا مسئلہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہے اور اجلاس میں فیصل آباد، لاہور، گجرات، جہلم، کراچی کے ارکان اسمبلی کو طلب کیا گیا تھا جو متاثرہ صوبے ہیں ان سے ایک ایک بندہ اپنی مرضی کا بلایا گیا تھا ہمارا وہاں پر بھی موقف تھا کہ جس کے گھر میں آگ لگی ہے اس سے تجاویز لیں۔مذاکرات کے ذریعے ہی بات چیت کا حل نکلتا ہے، بات چیت کے ذریعے لوگوں کے زخم پر مرہم لگاکر ان کی بات کو سن کر وسائل پر ان کا پہلا حق تسلیم کرکے ہم ایک ایسے پاکستان کے ساتھ چلیں گے جس کا خواب ہمارا بزرگوں نے دیکھا تھا۔اس موقع پر سینئر سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے میڈیا سے بات چیت میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات میں انہوں نے ہماری تلخ باتیں سنیں، ملاقات میں بلوچستان کے موجودہ اور آئندہ حالات پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان جس آئین کی بات کررہی ہے وہ اپنی اصل شکل میں بحال ہوگا اور اس پر مکمل عملدرآمد کیلئے پاکستان اور بلوچستان کو لوگوں کو یقین دہانی کرائیں گے اور محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان 1948 میں ہونے والے معاہدہ کو اس آئین کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ بلوچسان کے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ وہ بھی اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں محرومی نہیں بلکہ محکمومی ہے جہاں جعلی لوگوں کو لاکر پارلیمنٹ میں مسلط کیا جاتا ہے وہاں صوبے کی سول بیوروکریسی میں بھی لوگوں کو لاکر مسلط کیا گیا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں گرفتار خواتین سیاسی کارکنوں سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کرکے ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں اور اس کیلئے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے آواز بلند کی جائے اور جب تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل جماعتیں اقتدار میں آئین تو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے باضابطہ فعال کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو۔صوبے کے سیاسی عمل میں اداروں کی مداخلت ختم کی جائے اور بلوچستان کے لوگوں سے یہ وعدہ کیا جائے کہ آئندہ مائنس بلوچستان کی سیاست کا سلسلہ ختم اور اداروں سے مل کر سیاست نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اجرتی جماعتوں اور سیاسی لوگوں کے ذریعے بلوچستان کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں مطالبہ کیا کہ جعلی صوبائی اسمبلی کے ذریعے ہونے والی قانونی سازی ختم کرکے چہتوں کو الاٹ کئے گئے صوبے کے وسائل کی الاٹ منٹ کو منسوخ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا 43 فیصد نہیں ساحل بلوچستان کے ساتھ 60 فیصد ہے اس کو پاکستان کا 60 فیصد حصہ قرار دیا جائے، صوبے میں سیاسی عمل کا راستہ دیا جائے تو تشدد ختم ہوگا۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ بلوچستان کے مسائل کا پرامن حل تلاش کرنے میں تحریک تحفظ آئین پاکستان اپنا کردار ادا کرئے گا، انہوں نے کہا کہ مائنس بلوچستان سیاست کا خاتمہ کرکے کھل کر سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔انہوں نے مرتضی جتوئی،علی وزیر، بانی پی ٹی آئی سمیت لاپتہ افراد کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ اس موقع پر تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماسردار لطیف کھوسہ نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں بانی پی ٹی آئی کا پیغام لیکر آئے تھے۔گزشتہ روز سردار اختر مینگل کے دھرنے میں شریک ہوئے، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کہ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے، ڈاکٹر مارہ رنگ بلوچ ہماری بھی بیٹی ہے کسی کو بھی گرفتار یا اس کا دوپٹہ کھیچا جائے یہ ناقابل برداشت ہے۔انہوں نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کو یقین دلایا کہ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا ادراک ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارم 47 کی حکمرانی ناقابل قبول ہے 17سیٹوں والا وزیراعظم بن کر بیٹھا ہوا ہے اور 180 سیٹیں جیتنے والے کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اس لیے دولخت ہوا کہ ہم نے اس وقت بھی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، انہوں نے کہا کہ اسٹلیمشنٹ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین کے دائرہ میں رہے، حکومت کرنا عوام کا استحقاق ہے آئین نے عوام کو مقتدر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نوبزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم اس آئین پر عملدرآمد کرائیں گے جو عوام کو مقتدر کرتی ہے بلوچستان کے وسائل بلوچستان کے لوگوں پر خرچ ہوں گے اور دیگر صوبوں کے وسائل ان پر خرچ ہوں گے تب ہی ریاست مضبوط ہوگی۔قبل ازایں صاحبزادہ حامد رضا، علامہ راجہ ناصر عباس،سردار لطیف کھوسہ اور عبدالرحیم زیارتوال کی قیادت میں وفد نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی سے ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات کی، ملاقات میں نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے صوبے کے اجتماعی قومی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کے تحفظات، وفاق اور بلوچستان کے عوام کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ، لاپتہ افراد کے حوالے سے عوام میں پائی جانیوالی بے چینی اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے بعد پیدا ہونے والی تشویش اور دیگر قومی امور اور بلوچستان کی تاریخی حیثیت سے متعلق وفد کو آگاہ کیا۔ملاقات میں صاحبزادہ حامد رضا، علامہ راجا ناصر عباس، سردار لطیف کھوسہ نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے بلوچستان کے قومی اجتماعی مسائل کو وفاق میں اٹھاکر ان کے حل کیلئے ہرممکن جدوجہداور قانون سازی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *