جے یو آئی کی عملی تجاویز کو سنا جاتا اور عمل درآمد ہوتا توبلوچستان کو آج سنگین بحران کا سامنا نہ ہوتا،مولانا واسع

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)جمعیت علما اسلام بلوچستان کی صوبائی مجلس عاملہ و پارلیمانی گروپ کا ایک غیر معمولی، اہم اور طویل اجلاس صوبائی امیر سینیٹر مولانا عبدالواسع کی زیر صدارت ان کی رہائش گاہ، سروے 144 کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان کی مخدوش اور بحرانی صورتحال حکومتی طرزِ عمل اور کارکردگی کا بغور اور باریک بینی سے جائزہ لیا اور اس پر تفصیلی مشاورت کی گئی شرکا اجلاس نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ گزشتہ چار سے پانچ ماہ سے صوبے میں تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے غیر معمولی واقعات اور عوامی ردعمل پر حکومت کی خاموشی اور بے حسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ واضح کیا گیا کہ اگر جے یو آئی کی بروقت، سنجیدہ اور عملی تجاویز کو سنا جاتا اور ان پر عمل درآمد ہوتا تو آج بلوچستان کو اس سنگین بحران کا سامنا نہ ہوتا۔ حالات کو نظرانداز کرنا ہی اس ابتری کی اصل بنیاد بنا۔اجلاس میں حکومتی غیر سنجیدگی، ناکام حکمت عملی، اور غیر آئینی اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ شرکا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت وقت وقتی اور سطحی اقدامات کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کبھی دفعہ 144 کا نفاذ، کبھی 3MPO اور 16MPO جیسے قوانین کا بے جا استعمال، اور کبھی موبائل نیٹ ورک کی بندش یہ سب دراصل ایک مصنوعی فضا قائم کرنے کی ناکام کوششیں ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔اجلاس میں بی وائی سی کی رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین کی گرفتاری، اور اس کے نتیجے میں بی این پی کی جانب سے لانگ مارچ جیسے حساس معاملات پر تفصیلی غور و فکر کیا گیا۔ شرکا نے جمعیت علما اسلام کی مجوزہ تجویز کہ ان خواتین کو house arrest میں رکھا جائے تاکہ ایک جانب ان کی عزت و ناموس کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور دوسری جانب ریاستی رٹ بھی برقرار رہے کو ایک دانشمندانہ اور مثر حل قرار دیا۔ یہ تجویز “دو کشتیوں کو پار لگانے” کے مترادف ہے، جس سے خون خرابے کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور صوبے کی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہو سکتی ہے۔اجلاس نے متفقہ طور پر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ بلوچستان کے موجودہ بحران کی جڑ وہ دھاندلی زدہ انتخابات ہیں جن میں عوامی رائے کو مکمل طور پر پامال کیا گیا اور من پسند افراد کو اقتدار پر مسلط کر کے ایک مصنوعی حکومت قائم کی گئی۔ اس عمل کو شرکا نے “چور دروازے سے اقتدار میں داخل ہونے” کا مکروہ عمل قرار دیا، جو آج صوبے کی مفلوج صورت حال کا بنیادی سبب ہے۔ نہ اہل افراد پر مشتمل یہ حکومت نہ صرف عوامی اعتماد کھو چکی ہے بلکہ بیوروکریسی، اور انتظامیہ کو بھی بے عمل اور غیر مثر کر چکی ہے۔ یہ حکومت اپنی مرضی کے مطابق کبھی آئین اور قانون کا غلط استعمال کرتی ہے اور کبھی ریاستی وسائل کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر کے عوام کو بے خبر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔شرکا کا متفقہ مقف تھا کہ جب تک یہ مصنوعی حکومت اور ناہل ٹولہ اقتدار پر قابض رہے گا، صوبے کی صورتحال دلدل میں دھنستی چلی جائے گی۔ اس بحران کا واحد اور دیرپا حل شفاف، آزاد اور منصفانہ انتخابات ہیں جن کے ذریعے حقیقی عوامی نمائندے سامنے آئیں، جو عوام کے مسائل کو سمجھ سکیں، ان کا حل پیش کر سکیں اور ان کے اعتماد پر پورا اتر سکیں۔اجلاس میں واضح کیا گیا کہ جمعیت علما اسلام روزِ اول سے صوبے کے حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ ہر ممکن فورم پر ایک فعال، سنجیدہ اور باوقار کردار ادا کر رہی ہے۔ جماعت کی عوامی آگاہی، پرامن احتجاج، پارلیمانی جدوجہد اور سیاسی بصیرت کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اجلاس کل بھی جاری رہے گا، جس کے فوری بعد مجلس شوری کا خصوصی اجلاس منعقد ہو گا جس میں موجودہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کیا جائے گا۔اس اہم اجلاس میں صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا آغا محمود شاہ، صوبائی سرپرست اعلی مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا نذر محمد حقانی، مولانا کمال الدین، مولانا سرور ندیم، صوبائی ترجمان دلاور خان کاکڑ، حاجی غوث اللہ اچکزئی، حاجی نواز خان کاکڑ، حاجی واحد آغا، دین محمد سیگی، خالد ولید سیفی، میرحسن ساسولی ایم پی اے حاجی اصغر ترین، ایم پی اے سید ظفر آغا، ایم پی اے روی پہوجہ، ایم پی اے فضل قادر مندوخیل سمیت دیگر پارلیمانی اراکین نے شرکت کی۔