بلوچستان کے معدنی وسائل کےحوالے سے بلوچ قوم و قومی رہنماؤں کو اعتماد لیا جائے،سینٹر جان بلیدی


کوئٹہ (قدرت روزنامہ)نیشنل پارٹی کے رہنما، سینیٹر جان محمد بلیدی نے لاہور میں لیڈر میڈیا گروپ کے زیر اہتمام لاہور پریس کلب میں “بلوچستان کے مسائل اور حل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کیا سیمینار سے مجیب الرحمان شامی، امتیازعالم سمیت دیگر رفقا نے بھی خطاب کیا۔ نیشنل پارٹی کے قومی رہنما سینٹر جان بلیدی نے لاہور پریس کلب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان سے وفاق پاکستان کا رویہ روز اول سے منفی اور غیر منصفانہ رہا ہے بلوچستان کی قومی معاشی اور سیاسی حقوق کا احترام نہیں کیا گیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بلوچستان میں جاری نوآبادیاتی رویہ پاکستان کے وجود میں آنے کے باوجود ایسی طرح برقرار رہا ہے۔ گزشتہ ستتر سالوں میں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کو تواتر کے ساتھ نظر انداز کرتے رہے ہیں اور جاری نوآبادیاتی رویہ بدستور تاحال جاری ہے۔ ستتر77 سالوں میں یہ مسائل زیادہ گھمبیر صورت میں نمودار ہوئے ہیں حکمران تاحال بلوچستان کے عوام کے قومی و سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلوچستان رقبے کے لحاظ سے آدھے پاکستان کی جغرافیہ کا مالک ہے بے انتہا معدنی وسائل سے مالا مال ہے لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ بلوچستان کے وسائل و معدنیات پاکستان اور اس کے حکمرانوں کو عزیز ہیں اور روزانہ اسلام آباد میں کانفرنسیں کرکے بلوچستان کے معدنی وسائل کو عالمی منڈی میں اونے پونے داموں بھیچ رہے ہیں لیکن اس حوالے سے نہ بلوچ عوام کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ اس کی قومی لیڈرشپ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ بلوچستان کے معاشی مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اسلام آباد کو بلوچستان کے وسائل عزیز ہیں لیکن بلوچستان کے مفلوک الحال عوام سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہاں تک کے ڈیجیٹل مردم شماری کے بلوچستان کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کی آبادی کو ۸۰ لاکھ کمتر ظاہر کیا گیا جو عوام کے ساتھ کھلا فراڈ ہے۔ آدھے پاکستان کی آبادی کو تسلیم کرنے کے لیے وفاق پاکستان تیار نہیں کہ اس سے بلوچستان کی نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔ ساحل وسائل اور قو می کے حقوق سے مسلسل انکار کیا جارہا ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے عوام کے ووٹ کے حق کو بھی تسلیم نہیں کیا جارہا ہے بلوچستان کے عوام کو اور سیاسی پارٹیوں کو جو محدود سیاسی اسپیس میسر تھا اس بار اس کا بھی سودا کیا گیا اور بلوچستان کے تمام حقیقی سیاسی پارٹیوں اور قیادت کو دیوار سے لگایا گیا۔ راتوں رات پارٹیوں کی تشکیل کی جاتی ہے ستم ظریفی دیکھیں پہلے تو پھر بھی نوابوں اور سرداروں کو لایا جاتا تھا اب تو ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا اور ٹھیکدار مافیا کے ہاتھوں تمام صوبائی، قومی اور سینٹ کی سیٹیں بھچی گئیں ہیں اور یہی لوگ پاکستان کے ایوانوں میں بلوچستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کے ووٹ کے حق کو بھی تسلیم کرنے کو پاکستان کی طاقتور مقتدرہ تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں اور ملک کی طاقتور مقتدرہ نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا، بڑی سیاسی پارٹیاں اقتدار کے حصول کے لیے ہر وقت کمپرمائز کر جاتے ہیں قومی و عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر وقتی اقتدار کو قبول کر جاتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں اقتدار کے دور میں کچھ اور اور اپوزیشن میں کچھ اور ہوتے ہیں ان کی ترجہات قومی مسائل کے بجائے ان کے اپنے ترجہات سے جڑی رہتی ہیں۔ جان محمد بلیدی نے کھاکہ اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ جبری طور پر لاپتہ افراد کا ہے ریاست اور اس کے ادارے قانون و آئین سے بالاتر ہوگئے ہیں حکومتیں لاپتہ افراد کے مسلے کے حوالے سے سنجیدہ دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بلوچستان میں کرپشن اور اقربا پروری کی حد ہوگی ہے تعیناتی اور پوسٹنگ و ٹرانسفر پر رشوت لیا جارہا ہے۔ صوبے میں ملازمتیں برائے فروخت ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے مسائل حل ہونے کے بجائے زیادہ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان آج ان ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں خواتین اور بچے اپنے لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ نوجوان اج اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے سماج اور معاشرے میں خواتین کا بڑا احترام ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست اور اس کے ادارے بلوچستان کی روایات کو پامال کرتے ہوئے خواتین اور بچوں پر تشدد کرکے ان کو گرفتار کررہے ہیں اور ان کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ نیشنل پارٹی دھشت گردی کی شدد الفاظ میں مزمت کرتا ہے بے گناہ لوگوں کو راہ چلتے قتل کرنا کسی صورت بھی قبول نہیں۔ انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے مسائل کا حل مزاکرات میں ہے ریاست اور پاکستان کی قومی پارٹیوں کو قومی مفاہمتی پالیسی اپنائیں اور بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے لیے پالیسی بنائیں۔ بلوچستان میں اعتماد سازی کی ضرورت ہے سیاسی پارٹیاں اپنا کردار ادا کریں اور بلوچستان کے سیاسی جماعتوں اور نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کریں اور بلوچستان کے مسائل کا حل نکالیں۔ اعتماد سازی کے پہلے مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ گرفتار تمام سیاسی کارکنوں اور خواتین کو رہا کریں اور طاقت کے استمال سے اجتناب کریں اور لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے راستہ نکالیں۔ مزاکرات شروع کئے جاہیں۔ مسائل کا حل طاقت کے استمال سے نہیں مزاکرات سے ممکن ہے۔ تعلیم اور صحت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں اور میرٹ کی بنیاد پر نوجوانوں کو روزگار دیا جائے اور بارڈر پر ہونے والے کاروبار کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا ئے۔ ملازمتوں کی بندربانٹ اور فروخت بند کی جائے اور بلوچستان کے شاہراہوں کو ترجہی بنیادوں پر مکمل کیا جائے اور وسائل و اختیارات کی تقسیم کو منصفانہ بناکر تمام صوبوں کی یکساں ترقی کو یقینی بنایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *