سینیٹ فنکشنل کمیٹی اجلاس، 90 دن میں بلوچستان حکومت کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو پر رولز بنانے کی سفارش

اسلام آبا د(قدرت روزنامہ)سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے تفویض شدہ قانون سازی نے کابینہ ڈویژن کی جانب سے سول ایوارڈز کے اجراءکے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا۔ سینیٹر نسیمہ احسان کی زیر صدارت سینیٹ کی کمیٹی برائے تفویض شدہ قانون سازی کے اجلاس میں کابینہ ڈویژن حکام کی جانب سے سول ایوارڈز کے اجراءکے طریقہ کار پر بریفنگ دی گئی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سول ایوارڈز جاری کرنے کا طریقہ کار انتہائی غلط ہے۔میرے والد زندہ ہوتے تو اپنا ایوارڈ واپس کر دیتے۔ سینیٹر حامد خان نے کہا اس ملک میں ہر قسم کے دو نمبر آدمی کو ایوارڈ دے دیا جاتاہے۔ ایسا لگتا ہے ایوارڈز دینے کا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسیمہ احسان بولیں کن رولز اور قواعد کے تحت یہ ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔ سینیٹر حامد خان نے کہا ہمیں وہ نام بھی دیں جن کو اس سال ایوارڈز دئیے گئے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی نے سول ایوارڈز دئیے جانے کے طریقہ کار پر اظہارِ برہمی کر دیا۔ کابینہ ڈویژن حکام نے کمیٹی کو رولز آفس بزنس 1973 کے حوالے سے بھی بریفنگ دی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔ سینیٹ کمیٹی کا رولز آف بزنس 1973 میں ترامیم کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کر لیا۔ کمیٹی میں سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر حامد خان، سینیٹر روبینہ قائم خانی شامل ہوں گے۔ سینیٹ کمیٹی اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط کا تذکرہ بھی ہوا۔ سینیٹر حامد خان نے کہا کابینہ ڈویژن کو انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن پر اعتراضات سامنے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمیشہ عدالتی کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط پر تجویز تھی کہ کابینہ ڈویژن ایک انکوائری کمیشن بنائے۔کابینہ ڈویژن کے انکوائری ایکٹ کے تحت 2017 کے تحت ایک رکنی کمیشن بنایاگیا۔جب اعتراضات آئے تو کمیشن کے سربراہ نے خود کو کمیشن سے الگ کر لیا۔سینیٹ کمیٹی نے انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کی سفارش کر دی۔ سینیٹ کمیٹی برائے تفویض شدہ قانون سازی کو وزارت انسانی حقوق کی جانب سے دارالحکومت میں بچوں کی حفاظت اور ویلفیئر پر بریفنگ بھی دی گئی۔ بتایا گیا کہ بلوچستان میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے رولز 2016 سے اب تک نہیں بنے۔ اب تک 8 سال میں بلوچستان میں 250 بچوں کی نگہداشت کی گئی ہے۔ فنکشنل کمیٹی نے 90 دنوں میں بلوچستان حکومت کو رولز بنانے کی سفارش کر دی۔