سپریم کورٹ نے عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کا استفسار تھا کہ ریمارکس دیے کہ یہ کس نوعیت کا کیس ہے؟ آپ جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟، جس پر اسپیشل پراسکیوٹر پنجاب حکومت ذوالفقار نقوی نے جواب دیا کہ ہم نے ملزم کے 3 ٹیسٹ کرانے ہیں۔ ملزم ٹیسٹ کرانے کے لیے تعاون نہیں کر رہا۔
ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا
جسٹس ہاشم کاکڑ کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا، ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟
جسٹس ہاشم کاکڑ ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا۔اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں۔
چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے
اسپیشل پراسکیوٹر پنجاب حکومت کا مؤقف تھا کہ ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے۔
اس موقع پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا۔ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔
سلمان صفدر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔ ریمانڈ کے لیے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا۔
وکیل عمرا خان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے۔ جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی۔
وکیل بانی پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے مطمئن نہیں کرسکی۔
چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں
سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں۔ ہم 3 رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے بتایا کہ ایک شخص 8 سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، 8 سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا۔
کبھی ڈیٹھ سیل میں رہے ہیں؟
اس موقع پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے پراسیکوٹر پنجاب حکومت سے استفسار کبھی ڈیٹھ سیل میں رہے ہیں؟
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بینچ کو آگاہ کیا 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کے مطابق ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹوئٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کہا گیا اگر گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔
پانی سر سے گزر چکا
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے مؤقف میں کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔
عدالت کے ان ریمارکس پر اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بینچ آگاہ کیا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔
حکمنامہ
جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، اس کے بعد عدالت نے سماعت کا حکمنامہ لکھوا دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں قرار دیا کہ بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں 2 بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں۔استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہےْ
حکمنامے میں قرار دیا گیا کہ بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر قانونی اعتراضات اٹھا سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *