ماہرِ امراضِ قلب ڈاکٹر طارق فرمان نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کے دل کی شریانوں کی حالت بہت خراب ہوتی ہے شوگر نہ کنٹرول رہنے کے باعث وہ مزید زبوں حال ہوجاتی ہیںلوگ غلط تصور رکھتے ہیں کہ بائی پاس کرانے سے شوگر کے مریضوں کی حالت نارمل ہوجاتی ہے، شوگر کے مریض امریکا سمیت کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے آپریشن کرالیں، ان کی شریانوں کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی اسلئے ضروری ہے کہ شوگر کنٹرول کی جائے ماہرِ امراضِ سینہ ڈاکٹر سیف اللہ بیگ نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان 30ممالک میں شامل ہے جہاںنے ٹی بی کا مرض اب تک ختم نہ ہوسکا، ان تیس ممالک میں پاکستان کا نمبر پانچواںہے . ٹی بی کا ہر مریض سال میں 10 لوگوں کو ٹی بی منتقل کرتا ہے اور حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث وہ دس افراد 100 لوگوں کو ٹی بی منتقل کرتے ہیںجس سے یہ مرض پھیل رہا ہے، شوگر کا مرض قوتِ مدافعت کم کردیتاہے جس کے ٹی بی لگنے کا اندیشہ رہتا ہے ، انہوں نے کہا کہ شوگر آنکھوں سمیت جسم کے تمام اعضاء کو متاثر کرتا ہے ، ماہر ِامراضِ جگرمعدہ و آنت ڈاکٹر زاہد اعظم نے کہا کہ شوگر ان تمام اعضاء کو متاثر کرتی ہے البتہ شوگر سے بچائو کے لئے جگر معدہ و آنت کے معالج مریض کا وزن کم کرانے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں موٹاپا شوگر کا ایک اہم رسک فیکٹر ہے جسے ہم دوائوں اور سرجری کے بذریعہ ختم کر سکتے ہیں . دیگر مقررین نے کہا کہ خواتین کواپنے وزن پر کنٹرول کرنا چاہیئے ، حمل کے دوران باقاعدگی سے معائنہ کراتی رہیں، ان کے معالجین بھی ان کا خصوصی خیال رکھیں کیونکہ ان کی نسل کو شوگر سے بچانے کے لئے تمام تر اقدامات ضروری ہیں . تقریب کے آخر میںمقررین ، واک اور سیمینار کے منتظمین کو شیلڈ دی گئیں . . .
کراچی (قدرت روزنامہ) ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اوجھا کیمپس میں عالمی یومِ ذیابیطس کے سلسے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 26.7فیصد آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہے جس تیزی سے وبا کی صورت یہ مرض پھیل رہا ہے ، میں ایک ہیلتھ پروفیشنل کے طور پر یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ ملک میں چینی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے چینی درآمد کرنے کے بجائے چینی کی پیداوار کم کردی جائے اور عوام سے اپیل ہے کہ چینی کے ساتھ روٹی ، چاول اور چکنائی کا استعمال بہت کم جبکہ پھل اور کچی پکی سبزیوں کا استعمال بڑھادیں کیونکہ شوگر اٴْم ّالامراض ہے ( یعنی تمام امراض کی ماں) دل ، دماغ ، سینہ ، گردے اور آنت تک جسم کے تما م اعضاء اس سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ یہ مرض نسلو ں کو متاثر کرتا ہے کیونکہ حاملہ خواتین سے بچوں میں اسکی پیچیدگیاں منتقل ہوجاتی ہیں جو آئندہ آنے والی نسلو ں تک چلتی ہیں، شوگر کی بیماری پاکستان کے شعبہ صحت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے ،یہ باتیں انہوں نے یونیورسٹی کے ذیلی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈایابیٹس اینڈ انڈوکرائنالوجی (نائیڈ) کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب اور آگہی واک کے شرکاء اور میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہیں، سیمینار سے قبل آگہی واک کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جس کے شرکاء نے مین او پی ڈی بلاک سے نائیڈ تک بینرز اور پلے کارڈ اٹھاکر واک کی، پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ فاسٹ فوڈ اور دیگر غیر متوازن غذائیں کھا کر ہم دیکھتے ہیں کہ 25 سال کی عمر کے لڑکو ں اور لڑکیوں کو اسٹروک ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیںدیکھا گیا،سیمینار سے ڈائو انٹر نیشنل کالج کی پرنسپل پروفیسر فوزیہ پروین ،ڈائویونیورسٹی اسپتال کے میڈیکل سپریٹینڈنٹ ڈاکٹر زاہد اعظم ، نائیڈ کے ڈائریکٹر پروفیسر اختر بلوچ، ڈاکٹر سیف اللہ بیگ، ڈاکٹر طارق فرمان ، بریگیڈئر شعیب احمد ، پروفیسر نثار سیال، ڈاکٹر زرین کرن اور دیگر نے خطاب کیا .
پروفیسر نثار احمد سیال نے کہا کہ پاکستان میں تیزی سے شوگر پھیلنے کے نتیجے میں اکثر لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ شوگر کے مریض ہیں ، وہ ریٹنوپیتھی کا شکار ہوکر اس حالت تک پہنیچ گئے کہ بینائی ضائع ہو گئی ، انہو ں نے کہا کہ بعض افسوسناک واقعات دیکھے گئے ہیں جس میں بینائی چلی گئی ، شوگر کے مریضوں کو اپنی آنکھوں کا معائنہ کراتے رہنا چاہئیے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بی ہیوریل سائنسز کے ڈائریکٹر بریگیڈئر شعیب نے کہا کہ ڈائبیٹز اور نفسیاتی مرض ڈپریشن کا گہرا تعلق شوگر سے ہے ، مریضوں کا نفسیاتی معائنہ بھی ہونا ضروری ہے ، گائناکالوجی کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ پروین نے کہا کہ 25 سے ذیادہ بی ایم آئی کے حامل لوگ ذیابیطس کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیںبہتر ہے کہ واک اور ورزش کے ذریعے اپنے وزن کو کنڑول میں رکھیں .
متعلقہ خبریں