خلا اور سیاروں کی بو کیسی ہوتی ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)کائنات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے سائنسدان زمین کے قریبی پڑوسیوں سے لے کر سیکڑوں نوری سال دوری پر واقع سیاروں تک خلا کی بو کا تجزیہ کر رہے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق پرفیومر اور خوشبو کی معلم اور فلکیات کی محقق مرینا بارسینیلا کا کہنا ہے کہ مشتری ایک بدبودار بم کی طرح ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ نظام شمسی کا سب سے بڑے سیارے مشتری میں بادل کی کئی تہیں ہیں اور ہر تہہ کی کیمیائی ساخت مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گیس آپ کو اپنے زہریلے مارزیپن بادلوں کی میٹھی خوشبو سے مائل کر سکتی ہے اور جیسے جیسے آپ گہرائی میں جاتے ہیں وہ بو بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
مرینا نے کہا کہ شاید آپ کی خواہش ہوگی کہ آپ اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے جہاں آپ دباؤ سے کچلے جانے جیسا محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بادل کی سب سے اوپر کی تہہ امونیا کی برف سے بنی ہے جس کی بو بلی کے پیشاب جیسی ہوتی ہے۔ انہوں مزید کہا کہ پھر جیسے ہی آپ نیچے آتے ہیں آپ کو امونیم سلفائیڈ کا سامنا ہوتا ہے اور اس وقت جب آپ کے پاس امونیا اور سلفر ایک ساتھ ہوتے ہیں جو جہنم میں بنایا گیا ایک مجموعہ لتگا ہے۔ گندھک کے مرکبات کی بو سڑتے ہوئے انڈوں کی بدبو کی طرح ہوتی ہے۔
مرینا اپنے ابتدائی سالوں میں کائنات کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر یہ سوچا کرتی تھیں خلا کی خوشبو کیسی ہوگی تب انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس وہ مالیکیولز لیب میں ہیں جن سے وہ اندازہ کر سکتی ہیں کہ وہاں بو کن اقسام کی ہوسکتی ہیں۔
لہٰذا اپنے تعلیمی کام کے ساتھ ساتھ مریخ پر زندگی کی نشانیوں کی تلاش میں بیرونی خلا کی بدبوؤں کو بنانے میں مشغول ہوگئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سڑے ہوئے انڈوں کی بدبو سے لے کر بادام کی میٹھی خوشبو تک خلا ایک حیرت انگیز بوئیں رکھنے والی جگہ ہے۔
مرینا نے بتایا کہ سیارے، چاند اور گیس کے بادلوں میں سے ہر ایک کی اپنی منفرد خوشبو ہوگی اگر ہم انہیں اپنی ناک سے سونگھ سکیں۔
ہماری اپنی سونگھنے کی حس ہمارے ارد گرد کے ماحول میں کیمیکلز کا پتا لگانے کی اس صلاحیت کا محض ایک زیادہ نفیس ورژن ہے۔ ہماری ناک میں گھنے عصبی جھرمٹ ہوتے ہیں جو لاکھوں مخصوص نیورونز پر مشتمل ہوتے ہیں جو کیمور سیپٹرز کے نام سے جانے والے مالیکیولز سے جڑے ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی کیمیکل کے رابطے میں آتے ہیں تو وہ ہمارے دماغ میں ایک سگنل بھیجتے ہیں جسے پھر ایک الگ بو سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سونگھنے کی اس حس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کیمیکلز کا پتا لگانے کی صلاحیت ہے۔ انسانوں کے لیے بو نہ صرف کھانے کی اشیا کی شناخت کرنے میں مدد کرتی ہے یا ہمیں ماحولیاتی خطرات سے خبردار کرتی ہے، بلکہ یہ یادوں کو بھی متحرک کرتی ہے اور سماجی رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لاکھوں سالوں کے ارتقا کے بعد سونگھنے کی صلاحیت ہماری جذباتی تندرستی سے اندرونی طور پر جڑی ہوئی ہے۔
بدبو کے لحاظ سے بھی ایک خلائی اسٹیشن بھی ایک عجیب جگہ لگ سکتی ہے۔