اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر نامرد کرنے کی سزا ختم کی، حکومت

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں، ایک ذمے دار ملک ہے، کلبھوشن کا معاملہ قومی سلامتی کا ہے، اپوزیشن کو قومی سلامتی کا ادراک کیوں نہیں ہے؟ یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے، بل ایک آدمی کے لیے پاس نہیں ہوا، پاکستان عالمی عدالت میں کیس جیت چکا ہے۔ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ کیمیکل کاسٹریشن کی شق کو کریمنل لا بل سے نکالا گیا ہے۔ کیمیکل کاسٹریشن کی شق کو نکالنے کی سفارش اسلامی نظریاتی کونسل نے کی تھی ہم کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کرینگے جو اسلام کے منافی ہو۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور ملیکہ بخاری کی مشترکہ پریس کانفرنس، وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلبھوشن کا معاملہ قومی سلامتی کا ہے، اپوزیشن کو قومی سلامتی کا ادراک کیوں نہیں ہے؟ یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے، بل ایک آدمی کے لیے پاس نہیں ہوا، پاکستان عالمی عدالت میں کیس جیت چکا ہے، ہم نے اس قانون سازی کے ذریعے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ پاکستان نہیں بھارت عالمی عدالت انصاف میں گیا تھا، بھارت کے ناپاک عزائم تھے کہ عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس فائل کیا جائے، عالمی عدالت میں بھارت نے کل بھوشن کو بری کرنے کی درخواست کی تھی، عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن کو بری کرنے کا حکم نہیں دیا، بھارت تو کیس ہار گیا۔انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کا کیس تو ہمیں پچھلی حکومت سے ملا تھا، نوازشریف دور میں کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی، عالمی عدالتِ انصاف نے کہا کہ قانون سازی کی جائے، کسی نے کہا کہ امریکا بھی آئی سی جے کے فیصلے کو نہیں مانتا، ہم امریکا ہیں؟ امریکا الگ ملک ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں، ایک ذمے دار ملک ہے، اپوزیشن نے اس معاملے کو اپنی سیاست کا ایک ٹول بنایا ہوا ہے، لگتا ہے کہ اپوزیشن کو اس چیز کی تمیز نہیں ہے، یعنی ادراک نہیں ہے، اگر یہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں تو پھر بہت پرابلم ہے، عوام میں ڈس انفارمیشن پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کونسل سے پاکستان کے خلاف قرارداد لانے سمیت بھارت کے عزائم اس قانون سازی سے خاک میں مل گئے، اپوزیشن کلبھوشن کے بل کے بارے میں غلط تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری قانون ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ تمام چالیں ناکام ہوگئیں، شطرنج کا جو کھیل کھیلا گیا اس میں ہمیں کامیابی ملی ،وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملکی مفاد میں قانون سازی کی گئی ریپ کیسز میں خصوصی عدالتیں لائے تاکہ کیس میں التوا کی بجائے 4 مہینوں میں فیصلہ ہو گا،ینٹی ریپ کرائسز سیل ملک کے ہر ضلع میں قائم کیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ دہائیوں سے شرمناک ٹو فنگر ٹیسٹ پاکستان کے قانون میں شامل تھا جس کو ختم کیا گیا ہے ۔ عدالتوں میں خواتین کی کردار کشی روکنے کی شق بھی بل میں ڈالی گئی ہے۔ ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ کیمیکل کاسٹریشن کی شق کو کریمنل لا بل سے نکالا گیا ہے۔ کیمیکل کاسٹریشن کی شق کو نکالنے کی سفارش اسلامی نظریاتی کونسل نے کی تھی ہم کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کرینگے جو اسلام کے منافی ہو۔
وفاقی وزیرِ قانون نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں تمام 34 بل مفادِ عامہ میں پاس ہوئے، ابتدا میں ہی رول 10 کا حوالہ دیا گیا، مجبوری میں آئین کے مختلف آرٹیکلز کا حوالہ دینا پڑا، کہا گیا کہ الیکٹورل ریفارمز کو عدالت میں چیلنج کریں گے، کسی نے الیکٹورل ریفارمز پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کو بیچ دیا گیا ہے، کئی لوگوں نے بیان دیا کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری بیچ دی گئی، اسٹیٹ بینک اپنے قانونی اختیارات منتقل نہیں کرے گا۔

فروغ نسیم نے مزید کہا کہ 1998ء کے بعد 2008ء میں مردم شماری کرانی چاہیئے تھی، تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پورے سندھ کا، بلوچستان کا مطالبہ تھا کہ دوبارہ مردم شماری کرائی جائے، مردم شماری کو کالعدم کرنے کی بجائے قومی مفاد میں نئی مردم شماری کا فیصلہ کیا، نئی مردم شماری اب ہونے جا رہی ہے، جس کے لیے جدید طریقہ کار اپنایا جائے گا، اس میں ماڈرن ڈیوائسز استعمال ہوں گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی نہیں ہونی چاہیئے، ہمارا مؤقف ہے کہ ہر جگہ یونیورسٹیز اور تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں، اگر آپ سچ پر بات کرتے ہیں تو پھر جیسے چاہیں تنقید کریں۔

وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں رفاہ عامہ کی قانون سازی کی گئی۔ اپوزیشن دوستوں نے جو باتیں کی، بڑی عجیب لگیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں رول 10 کا حوالہ دیا گیا جس کا میں نے جواب آرٹیکل 72 سے دیا الیکٹورل ریفارمز جو منظور ہی نہیں ہوئیں انکو اپوزیشن بڑے شوق سے چیلنج کرلے سٹیٹ بینک بل کے بارے میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کو بیچ دیا گیا ہے ۔کلبھوشن یادیو سے متعلق بل قومی سلامتی کا معاملہ ہے اگر اپوزیشن کو قومی سلامتی کی سمجھ نہیں تو یہ ممبر پارلیمنٹ کیسے ہیں؟ عالمی عدالت انصاف نظرثانی بل صرف کلبھوشن سے متعلق نہیں ہے، جو اس پیرائے میں آئے گا، لاگو ہوگا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مردم شماری 1998 کے بعد 2008 میں ہوجانا چاہیے تھا لیکن پیپلزپارٹی حکومت نے نہیں کرائی، قومی مفاد میں نئی مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا جس کی پیپلزپارٹی مخالفت کررہی ہے۔ نئی مردم شماری میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے الیکٹرنک ٹیکنیکس پر کریں گے۔ حیدر آباد یونیورسٹی کا بل منظور کیا گیا، پتہ نہیں پیپلزپارٹی کیوں نہیں چاہتی۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کوئی بل بھی پاس نہیں ہونےدینا چاہتی تھی ،کوئی آپ سے اگر کہہ رہا ہے کہ بات چیت کی جاتی تو وہ غلط کہہ رہا، اپوزیشن بند کمروں میں ماحول اچھا کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اجلاس میں تقریریں شروع کردیتے ہیں۔ اسپیکر سب کو چانس دے رہے تھے، اگر تھوڑی دیر کسی کو موقع نہیں ملا تو مندوخیل بن جاتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت نام ہی عددی اکثریت کا ہے۔