’’ مجھے اگر آْج موقع ملے تو۔۔۔‘‘صدرِ پاکستان سے لے کر چپڑاسی تک سب کیا سفارش لے کر آتے ہیں ؟ نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر رہنے والے فواد حسن فواد کے تہلکہ خیز انکشافات
میں فواد صاحب کے ساتھ بحث کرنا چاہتا تھا لیکن میں نہ کر سکا لیکن ہمیں بہرحال ماننا پڑے گا معاشروں کی عمارتیں انصاف کی بنیادوں پرکھڑی ہوتی ہیں‘ انصاف جتنا زیادہ اور اچھا ہو گا ملک اتنا ہی ترقی کرے گا اور اس میں امن و امان اور سکون بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا لیکن اگر یہ بنیاد کم زور ہو گی تو پھر عمارت بن سکے گی اور نہ کھڑی رہ سکے گیاور ہمارے ملک میں انصاف سرے سے ہی موجود نہیں‘ ہم بچپن میں سنتے تھے پاکستان میں انصاف فقط امیر اور طاقتور کو ملتا ہے‘ غریب صرف سزا پاتا ہے لیکن ہم آج کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں امیر ہو یا غریب پاکستان میں یہ دونوں انصاف سے محروم ہیں‘ افتخار محمد چودھری‘ جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ جسٹس فائز عیسیٰ اور فواد حسن فواد اس کی تازہ ترین مثال ہیں‘یہ تمام لوگ طاقتور تھے لیکن یہ بھی جب عدالتوں میں پہنچے توعبرت کی نشانی بن گئے اور اگر اب جسٹس ثاقب نثار اور چیف جج رانا شمیم کو بھی عدالت نے طلب کر لیا تو آپ ان کا حشر بھی دیکھ لیجیے گا لہٰذا پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہم جب یہ جانتے ہیں معاشرے کفر کے ساتھ سلامت رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں اور ملک کو ایک غیر جانب دار اور شفاف نظام عدل ہی بچا سکتا ہے تو ہم ایک ہی بار ملک میں انصاف قائم کیوں نہیں کر دیتے؟ ایک ایسا نظام عدل کیوں نہیں لے آتے جو صرف جرم دیکھے مجرم کا چہرہ نہ دیکھے‘ ہم آخر کب تک کھلی آنکھوں سے مکھیاں کھاتے رہیں گے؟ . . .