’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک میں شامل خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ

گوادر (قدرت روزنامہ)مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں جاری دھرنے ’’گوادو کو حق دو‘‘ تحریک میں خواتین کی بڑی تعداد نے مردوں کے شانہ بشانہ شرکت کی۔گزشتہ دو ہفتوں سے زائد احتجاج جو کہ مولانا ہدایت الرحمان کی زیر قیادت جاری دھرنے میں خواتین طالبہ نسیفہ بلوچ کی قیادت میں گوادر کی خواتین نے شرکت کی۔.اس ریلی کو نہ صرف گوادر کی تاریخ بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی خواتین کی ریلی بھی کہا جارہا ہے
اس ریلی میں انگریزی، اردو اور بلوچی زبان میں خطاب کرتے ہوئے طالبہ نفیسہ بلوچ نے کہا کہ ’ہم گوادر کی خواتین مولانا ہدایت الرحمان کو دھکانے والوں کو یہ بتا دینا چاہتی ہیں کہ ’’وہ ایک محض ایک فرد نہیں ہیں بلکہ گوادرومکران کے مظلوم عوام کی آواز ہیں‘‘۔یاد رہے حکومت نے گوادر تحریک کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفیکیشن تو جاری کرچکی ہے مگر دھرنے کے شرکاء ان پر عمل درآمد ہونے کے حوالے سے مطمعئین نہیں۔
گوادر کو حق دو تحریک کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں لیکن دھرنے کے شرکاء ان پر عملدرآمد کے حوالے سے مطمئن نہیں دکھائی دیتے۔ مکران ڈویژن کے ہیڈکوارٹر تربت میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سرحدی تجارت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے جن میں ٹوکن سسٹم کا خاتمے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔خواتین شرکاء کا کہنا تھا کہ ہم مجبور ہو کر اپنے گھروں سے نکلے ہیں کیونکہ ان کے مردوں کا روزگار غیر قانونی ماہی گیری اور ایرانی سرحد پر تجارت پر پابندیوں کے بعد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔اس موقع پر نفیسہ بلوچ نے واضع کیا کہ کہ مولانا ہدایت الرحمان کو ڈرانے و دھمکانے کی کی کوششیں جا ری ہیں لیکن وہ ڈرانے والوں کو کہنا چاہتی ہیں کہ مسلسل ظلم و جبر کی وجہ سے ڈراور خوف ختم ہو جاتا ہے۔
یہ ظلم کی انتہا ہے ہم بھوکے ہیں، بیروزگار ہیں، ہمیں نہ صحت اور تعلیم کی سہولت حاصل ہے۔ یہاں نہ پانی ہے اور نہ بجلی۔نفیسہ بلوچ نے کہا ہمیں ڈرانے والے اپنی طاقت دکھا چکے ہیں اور اب ہم اپنی طاقت دکھائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نکلے ہیں ان اداروں اور کرپٹ لیڈروں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اور مولانا سے ہم خواتین کا وعدہ ہے کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ ہیں۔اس سے قبل مکران کے ہیڈ کوارٹر تربت میں وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ایک اعلی سطح کے اجلاس میں سرحدی تجارت کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے جن میں ٹوکن سسٹم کا خاتمے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔
اس فیصلے لئاجراء کے بعد وزراء کی جانب سے شرکاء سے دھرنے کو ختم کرنے کا کہا گیا مگر دھرنے کے شرکاء نے کہا کہ وہ تین دن تک ان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے بعد دھرنے کو ختم کرنے یا جاری رکھنے کے بارے میں فیصلہ کرسکیں گے۔مگر وہ تین دن گزر گئے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد نہیں ہوا اوران حوالوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی اب بھی مقامی انتظامیہ کے بجائے ایف سی معاملات کو دیکھ رہی ہے ۔ اس لئے نہ صرف دھرنا جاری ہے بلکہ گوادر کی خواتین بھی دھرنے کی حمایت میں گھروں سے نکل آئی ہیں۔