عالمی برادری افغانوں کی مقروض ہیں پاکستان میں آقااور غلام کا رشتہ قبول نہیں، محمود خان اچکزئی

کوئٹہ(قدرت روزنامہ) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین پی ڈی ایم کے مرکزی نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ قوموں،عوام اور انسانیت کو جب مشکلات درپیش ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ پیغمبر بھیجا کرتے لیکن آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوچکاہے،خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کہتے ہیں کہ اچھے مقرر اور ترجمان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے گفتار میں سچا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے باطن اور کردار میں بھی آئینہ جیسا پاک صاف ہو، پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں نے اپنی صفوں کو ہر سطح پر منظم کرتے ہوئے ہر قسم کے منفی رویے،منفی طرز عمل،دھوکہ بازی سے دور رہتے ہوئے اعلیٰ کردار کے حامل بن کر آگے بڑھنا ہوگا۔ پشتون ملت کی آپس کی رنجشیں ناقابل تلافی نقصانات پہنچارہی ہیں، رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ ایماندار تاجر شہدا اور غازیوں کے ساتھ روز محشر کے دن اٹھ کھڑے ہونگے، اقوام متحدہ بحیثیت ادارہ اور روس اور امریکہ اور اس کے اتحادی افغان ملت کے قرضدار ہے،اقوام متحدہ نے بینن سیوان کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے اور ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کی شہادت کے اذیت ناک واقعہ کی لازماً تحقیقات کرنی ہوگی،تمام افغان ملت نے متحدہ محاذ تشکیل دیکر تمام دنیا پر اپنا موقف واضح کرنا ہوگا کہ افغانستان کو کسی نئے جنگ کا میدان نہیں بننے دینگے، جرگوں کی بات تین سال سے مسلسل کررہا ہوں،دہشتگردی کے نام پر المناک جنگ میں پشتون عوام ہی ستر ہزار سے زائد شہید ہوئے،

اس ملک میں آقا اور غلام کا رشتہ قبول نہیں،حقیقی جمہوری پاکستان استحکام اور ترقی کا راستہ ہے،اپنے قوم اور عوام کو ظلم وجبر سے نجات دلانے کی جدوجہد حضرت موسیٰ ؑ کی سنت کی پیروی ہے،اللہ پاک نے غلامی کو بندگی سے تشبیہ دی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کی 48ویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس سے پارٹی کے مرکزی وصوبائی سیکرٹری عبدالرحیم زیارتوال، سندھ زون کے صدر نذیر جان، سنیٹر سردار شفیق خان ترین، رکن صوبائی اسمبلی خیبر پشتونخوا میر کلام وزیر، سردار اشرف کاکڑ، خالقداد وطنپال اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر خطے اورعلاقے میں ایسے انسان پیدا کیئے اور انہیں صلاحیتوں سے نوازتے ہوئے یہ ہمت دی کہ وہ محکوم اقوام وعوام کو ظالم حکمرانوں کے ظلم وجبر سے نجات کے باعث بنے، خان شہید نے بھی ایسے گھمبیر حالات میں جدوجہد کی شروعات کی جب ہمارے خطے اور علاقے پر انگریزی سامراج قابض تھا اور ہرطرف ظلم وجبر کا دور دورہ تھا۔ انہوں نے خان شہید کے جدوجہد کے شروعات کے مختلف واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ خان شہید اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ مجھے علامہ اقبال کے اس دعا ’’لب آتی ہے کہ دعا بن کے تمنا میری“ نے متاثر کیا کہ میں اس دعا کے معنی کے عملی صورت بن کر اپنے قوم کیلئے خدمت کا ذریعہ بنوں۔ اور تعلیم کے دوران املا لکھتے وقت اُن الفاظ کے معنی نے بھی مجھے روشنی عطاء کی کہ اچھے مقرر اور ترجمان کیلئے اچھے گفتار کے ساتھ ساتھ عملی طور پر باطن میں بھی ایسے پاک اور صاف کردار کے حامل ہو جس طرح آئینہ صاف اور شفاف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خان شہید نے ہندوستان کے پہلے دورے سے واپسی پر 1931ء میں کھدر کا لباس پہننے کا عزم کرتے ہوئے ساری زندگی قربانیوں سے لبریز جدوجہد کرتے ہوئے آخر کار 1973میں اُسی کھدر کے کپڑوں میں ہی شہید اور دفن ہوئے۔ انہو ں نے کہا کہ پارٹی عہدیداروں،کارکنوں نے وقت اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے ہر حالت میں اجتناب کرنا ہوگا اور ہر سطح پر پارٹی کو فعال وسیع اور منظم بنانے میں اپنی صلاحیتوں کو دوبالا کرنا ہوگا۔ اور ہر قسم کے منفی رویہ، منفی اقدار،فراڈ اور دھوکہ سے اپنے آپ کو دور رکھ کر اعلیٰ کردار کے حامل انسان بن کر آگے بڑھنا ہوگااور منفی طرز عمل اور منفی سوچ قوم اورپارٹی کیلئے زہر قاتل ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں کے حق پر قبضہ ظلم اور گناہ ہے اس قبیح عمل سے ہر صورت اجتناب ضروری ہے اور اپنا جائزحق غیر وں کیلئے چھوڑنا بے غیرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنماؤں سے بھی استدعا ہے کہ وہ تمام افغانوں پر مشتمل لویہ جرگہ بُلا کر افغانستان کے استقلال کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اس بات کیلئے سوچیں اور فیصلہ کریں کہ آئندہ افغانستان میں اسلحہ کے زور پر حکمرانی کی تبدیلی کے طریقہ کارکو ختم کرے اور یہی جرگہ عبوری دور کیلئے تمام افغانوں پر مشتمل ایک ایسے عبوری حکومت کی تشکیل کرے جو مستقبل کے افغانستان کیلئے افغانی آئین اور روایات کی روشنی، حکومتوں کی تبدیلی کیلئے ایک ایسا آئینی جمہوری طریقہ کار وضع کریں جو موجودہ صدی کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امریکہ اور چین کی رنجش،اسرائیل اور ایران کا تناؤ،عربوں کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی نیک شگون نہیں اور مختلف تنظیموں کے عذر کے نام پر ہمارے وطن کو جنگ کا میدان بننے کے خلاف مزاحمت ضروری ہے۔ اور اس مزاحمت کی ایک اچھی شکل افغان عوام کی متحدہ محاذ کی تشکیل اور آواز بلند کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کی بربادی کے باعث افغان عوام کو دنیا کے ہر براعظم میں جاکر مسافر بننا پڑا۔ لیکن اذیت اوردرپدری کی اس زندگی میں افغان عوام کی نئی تعلیم یافتہ نسل تیار ہوئی ہے۔ دنیا کہ مختلف ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں افغان ہر مسلک کے ماہرین بن چکے ہیں اور افغانستان اس خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس زندگی کے ہر شعبے کے اعلیٰ ماہرین موجود ہیں۔ افغان حکومت نے ان ماہرین کو اکھٹا کرکے ملک کی ترقی وخوشحالی کیلئے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عثمان لالا شہید کے جنازے میں جس جرگے کی بات کی تھی اُس کیلئے میں تین سال سے عرض کرتا رہا ہوں کہ پاکستان کے اندر رہنے والے پشتون عوام کا ایک جرگہ ضروری ہے اور دوسرا افغانستان کے اندر اور تیسرا بین الاقوامی دنیا میں کسی مقام پر پشتون افغان ملت کے جرگہ کا انعقاد ضروری ہے جس میں دنیا پر یہ واضح کیا جائے کہ پشتون افغان ملت دہشتگرد نہیں اور نہ ہی کبھی تاریخ میں دہشتگرد رہے ہیں اور ان تمام جرگوں میں پشتون افغان ملت کو درپیش مشکلات سے نجات کی جدوجہد کاقومی ایجنڈا تشکیل دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے لیکن اس میں آقا اور غلام کا رشتہ قابل قبول نہیں بلکہ ہر قوم اپنی سرزمین پر آباد ہیں ہمارے ملک کی بقاء استحکام اور ترقی وخوشحالی کا راستہ یہ ہے کہ شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، فوج سمیت تمام ادارے آئین کے دائرہ میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں،تمام اقوام کو ان کے وسائل پر اُ ن کا اختیار عملاً تسلیم کرتے ہوئے ان کی قومی زبانوں کو احترام دیا جائے اور اس طرح پھر حقیقی جمہوری پاکستان کو ہی تا قیامت زندہ آباد کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بربادی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام ادارے خونخوار حیوانوں کی طرح پاکستان کے ہر شعبے کو نوچ رہے ہیں جبکہ ہر شعبہ زندگی میں انتہائی کم ایسے لوگ ہیں جو اس گناہ کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کا چلنا اور ترقی کرنا ممکن نہیں۔ سینٹ کے انتخابات میں 70کروڑ روپے کے عیوض ایک ووٹ لینے کی روایت سارے ملک کے کردار پر بدنما داغ ہے اگر ہم نے اس خطرناک نظام کیخلاف نکل کر آواز بلند نہیں کی اور اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے اسے بچانے کی کوشش نہیں کی تو ہمارے ان بدکاریوں کے باعث ملک ہر سطح پر ڈو ب جائیگا۔