رانا شمیم کا اصل بیان حلفی پہنچ گیا، تمام فریقوں سے حلفیہ بیان طلب

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا اصل بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ کو برطانیہ سے موصول ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیان حلفی لندن سے کورئیر کے ذریعے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو موصول ہوا۔ رانا شمیم کا اصل بیان حلفی پیر کو عدالتی کارروائی کے بعد موصول ہوا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے رجسٹرار نے سربمہر لفافے کو ایک اور سیل لگا دی جو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق لفافے پر کانفیڈنشل کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لفافہ صرف چیف جسٹس ہائی کورٹ کھول سکتے ہیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیےہیں کہ انصار عباسی کو بہت پہلے سے جانتا ہوں ، ان کی ساکھ ہے ، عدالت سورس نہیں پوچھے گی ، یہ اس عدالت کی ساکھ اور اس پر عوام کے اعتماد کا سوال ہے ، اگراس عدالت پر لوگوں کا اعتماد ختم کرنے کا سوال ہو تو عدالت برداشت نہیں کرے گی ، آج کے دور میں سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بن رہا ہے ، اگر کورٹ کے بارے میں بداعتمادی پھیلا دی تو کیا ہو گا؟ ہم نہیں سائلین اہم ہیں ، میں اور اس عدالت کے جج احتساب کیلئے تیار ہیں ، یہاں پر تو سیاسی بیانیے کیلئے چیزیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے رانا شمیم سے متعلق خبر کی اشاعت کے حوالے سےتمام فریقین سے بیان حلفی طلب کرلئے ، جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ خبر کی تصدیق کے حوالے سے رانا شمیم اور انصار عباسی کے موقف میں فرق ہے ، چاہتے ہیں اس معاملے پر سوالات کریں ، یہ کیس فرد جرم کا بنتا ہے۔سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ جب رانا شمیم سے موقف لیا تو انہوں نے بیان حلفی پریولیج ہونے کی بات کی نہ ہی بیان حلفی شائع کرنے سے روکا ۔
پیر کو رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق خبر کے حوالے توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈیٹر انوسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی ، ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری ، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ خان نیازی ، عدالتی معاونین فیصل صدیقی اور ریما عمر پیش ہوئیں جبکہ ایڈیٹر انچیف جنگ گروپ کی جانب سے طبی وجوہات پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرائی گئی۔سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ رانا شمیم کو اوریجنل بیان حلفی جمع کرانے کیلئے ایک اور موقع دیا گیا تھا ، پتہ نہیں وہ آج اوریجنل بیان حلفی جمع کرا رہے ہیں یا نہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک درخواست آئی ہے ، کیا آپ نے دیکھی ہے؟ اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کی متفرق درخواست پڑھی کہ رانا شمیم کے نواسے نے 9 دسمبر کو اصل بیان حلفی کوریئر کے ذریعے بھجوا دیا ہے ، یہاں پہنچنے میں تین دن لگ سکتے ہیں۔

اس موقع پر پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ بیان حلفی دینے والا اگر اس کی تصدیق کررہا ہے تو وہ شائع ہونا چاہئے ، انصارعباسی بہترین صحافی اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ دستاویز خفیہ ہوتو کیا پھر بھی وہ بیان حلفی شائع ہونا چاہئے؟ جو ہیڈ لائن شائع ہوئی اس پر غور کریں ، زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہو سکتی ، پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پرنوٹری پبلک کیخلاف انکوائری شروع ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا ، آپ انٹرنیشنل اصول بتائیے گا ، اس ایک خبرکی وجہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی ، ڈیلی ٹیلی گراف اور گارڈین جیسے اخباروں کے چیف ایڈیٹرز کو تین تین ماہ کی سزا ہوئی ، اگرلوگوں کو اعتماد نہ ہوتو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیسزنہیں سن سکتے ، ایسا تاثر نہیں دینا چاہئے جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا ، اس کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پرعملدرآمد کا معاملہ چل رہا ہے .

رانا شمیم اپنے جواب میں کہتے ہیں کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا ، کیا ہم اٹارنی جنرل سے معاونت لے کر نوٹری پبلک کو نوٹس کریں ، کیا صحافت میں آپ کسی کو انصاف کی فراہمی میں مداخلت کریں گے ؟ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی تین سال بعد زندہ ہو اور آکر عدلیہ پر کوئی بھی بات کرے ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی خبر ٹھیک ہے آپ نے اچھا کیا تو مجھے بین الاقوامی قوانین سے سمجھائیں ، آپ کسی بین الاقوامی صحافی کا نام دیدیں ان کو عدالتی معاون قرار دے کر رائے طلب کریں گے لیکن مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ ہی عدالت کو مطمئن کریں .

یہ اس اسلام آباد ہائیکورٹ کی بات ہے جہاں بہت سے حساس مقدمات زیر سماعت ہیں ، اگراس عدالت پرلوگوں کا اعتماد ختم کرنے کا سوال ہو تو عدالت برداشت نہیں کرے گی ، بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر بتائیں کہ خبر ٹھیک شائع کی گئی؟ ادارے میں ایڈیٹر اورچیف ایڈیٹر اسی لئے ہوتا ہے کہ اس نے چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آج کے دور میں سچ جھوٹ بن رہا ہے اور جھوٹ سچ بن رہا ہے ، یہ مجھے نہ بتائیے گا کہ کیا کیا ہوتا رہا ہے؟ آپ سے پہلے سارے لاپتہ افراد کے مقدمات تھے ، اگر کورٹ کے بارے میں بداعتمادی پھیلا دی تو کیا ہو گا؟ میں اور میری کورٹ کے جج احتساب کیلئے تیار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں شوکاز نوٹس پر رانا شمیم کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا اور کہا کہ رانا شمیم نے کہا کہ اگر عدلیہ کی توہین مقصود ہوتی تو بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کرا کے میڈیا کو دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس فرد جرم کا بنتا ہے ، عدالت فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرے ، فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہوں گا ، رانا شمیم نے اوریجنل بیان حلفی دیگر ذرائع سے لیک ہونے کے خدشات بیان کئے۔

اس موقع پر ایڈیٹر انوسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی نے کہا کہ مجھے بات کرنے کا موقع نہیں ملتا ، میں نے جب رانا شمیم سے موقف لیا تو انہوں نے بیان حلفی پریولیج ہونے کی بات کی اور نہ ہی مجھے بیان حلفی شائع کرنے سے روکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی میں جس جج کے بارے میں بات ہوئی وہ اس وقت چھٹی پر تھے۔ انصار عباسی نے خبر کے مندرجات پڑھ کر سنانے شروع کئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ خبر رہنے دیں ، آپ کی ایک ہیڈلائن نے لوگوں کا ہائی کورٹ پر سے اعتماد اٹھایا ، ہمارا نصب العین ہے کہ سائلین ہی سٹیک ہولڈرزہیں۔

چیف جسٹس نے انصار عباسی سے کہا کہ آپ کو بہت پہلے سے جانتا ہوں،آپ کی ساکھ ہے۔ ہم اس معاملے کو بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں دیکھیں گے۔ بین الاقوامی میڈیا قوانین سے عدالت کو مطمئن کریں۔ انصار عباسی نے کہا کہ اس عدالت کیلئے کافی احترام ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں اور آپ اہم نہیں ، یہاں کے عوام اور سائلین زیادہ اہم ہیں ۔