برقعے کے ساتھ میڈیا میں کام کرنے نہیں دیا جا رہا تھا ۔۔ میڈیا کی طالبہ برقع پہن کر بھی صحافی بن گئیں، جانیں اس لڑکی کی کہانی کے بارے میں
ڈیرہ اسماعیل خان(قدرت روزنامہ)پاکستان جیسے جیسے جدید دور کی جانب بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ملک میں انسانی سوچ بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ لیکن کئی ایسے علاقے ہیں جہاں خواتین کے لیے مشکلات ہوتی ہیں۔ اس خبر میں آپ کو ایک ایسی ہی لڑکی کے بارے میں بتائیں گے جس نے اپنے برقع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی، صابحہ شیخ صحافت کی دنیا می پہلی لڑکی ہیں، جو کہ مختلف چیزوں اور تقاریب کے بارے میں رپورٹ تیار کرتی ہیں۔
صابحہ کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے.ڈیرہ اسماعیل خان میں صحافت کے میدان میں قدم رکھنے والی صابحہ ویسے تو عام لڑکیوں جیسی ہی ہیں مگر منفرد اس طرح ہیں کہ وہ اپنے نظریہ اور سوچ ہر سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان کی صابحہ کی جانب سے یہ انٹرویو دی سینٹرم میڈیا کو دیا گیا تھا۔صابحہ برقع پہن کر اپنے کام پر توجہ دے رہی ہیں، انہیں کئی ٹی وی چینلز جوائن کرنے کے لیے مشورہ دیا گیا، جبکہ آفرز بھی آئیں۔ مگر سبیحا کا کہنا ہے کہ انہوں نے برقع اتارنے کو کہا تھا، میڈیا کی سب سے پہلی ترجیح برقع کو ترک کر دینا ہے۔
میں برقع کبھی نہیں چھوڑ سکتی ہوں، یہی وہ ہے کہ میں اپنے بل بوتے پر صحافت کر رہی ہوں۔ صابحہ ان لوگوں کی آواز بننا چاہتی ہیں جو کہ معاشرے کے ستائے ہوئے ہیں اور ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈی آئی خان میں خواتین کی آواز دبی ہوئی ہے۔خود صابحہ کو صحافت میں قدم رکھنے پر صرف والدہ نے سپورٹ کیا جبکہ خاندان کے دیگر افراد سبیحا کا مزاق اڑایا کرتے تھے۔ صابحہ کہتی ہیں کہ خاندان والے مزاق اڑاتے ہیں کہ موبائل میں جو لڑکی چیخ رہی تھی، وہ فلانی ہے۔صحافت کی دنیا میں قدم جمانا صابحہ کے لیے آسان نہیں تھا، وہ بتاتی ہیں کہ شروعات میں میں جہاں بھی جایا کرتی تھی تو مجھے ایسے دیکھا جاتا تھا جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔
لوگ سوال کرتے تھے کہ تم کہاں سے آ گئی ہو۔ لوگوں کو سمجھانے میں کافی وقت نکل جاتا تھا کہ میں بھی ایک صحافی ہوں۔2018 میں صابحہ نے اپنی دوست سمیرہ لطیف کے ہمراہ برقع جرنلسٹ کے نام سے صحافتی میدان میں قدم رکھا تھا۔ صابحہ اپنے ثقافتی اور روایتی حدود میں رہ کر صحافت کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری شناخت ہماری صورت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارا کام ہونا چاہیے۔ صابحہ بتاتی ہیں کہ خواتین صحافی تو حیران تھیں مگر مرد صحافی بھی حیرت زدہ تھے کہ یہ لڑکی کس طرح صحافت کر رہی ہے۔صابحہ اس وقت اپنے خرچہ پر تمام کام کر رہی ہیں مگر انہیں امید ہے کہ حکومت ان کی معاونت ضرور کرے گی۔