وہ نظم جو فیض احمد فیض نے ڈھاکہ سے واپسی پر کہی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سانحہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 ء کو پیش آیا جسے سقوط ڈھاکہ بھی کہا جاتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں بنگلا دیش دنیا کے نقشے پر ابھرا۔بھارتی سازشوں کے نتیجے میں 26 مارچ 1971 ء کو جنگ کا آغاز ہوا اور 16 دسمبر 1971 ء کو مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا جس کی وجہ سے پاکستان آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑی ریاست سے محروم ہو گیا ۔
ملک کے اس سب سے بڑے سانحے پر مشہور شعراء نے بھی اُس وقت اپنی تکلیف اور دُکھ کا اظہار مختلف نظموں کے ذریعے کیا۔
مشہورشاعر فیض احمد فیض نے بھی ایک نظم 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی تھی، وہ نظم یہ ہے۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کرنے والے فیض احمد فیض کی یہ نظم ان کی کتاب نسخہ ہائے وفا کے صفحہ نمبر 538 پر موجود ہے۔
فیض احمد فیض کے علاوہ معروف شاعر دانشور اور محقق نصیر ترابی نے بھی سقوط ڈھاکہ پر ایک نظم کہی تھی جو آج بھی زبان زد عام و خاص ہے۔
سقوط ڈھاکہ پر نصیر ترابی کی غزل
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
کہا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگ اخبار کے سرورق پر نصیر ترابی کی غزل چھپی جو71 میں ایک نوجوان شاعر کے خیالات تھے۔