پیوٹن کا دورہ بھارت، دونوں ممالک پھر قریب آرہے ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)روس کے صدر، ولادیمیر پیوٹن نے دسمبر کے اوائل میں بھارت کا دو روزہ دورہ کیا، تو بہت سے تجزیہ نگاروں کا سوال تھا کہ کیا پیوٹن کا یہ دورہ روس اور بھارت کو دوبارہ قریب لانے میں کام یاب رہا؟اس کا سادہ سا جواب ایک اور سوال کی صُورت دیا جا سکتا ہے کہ کیا روس اور بھارت کبھی دُور بھی ہوئے تھے؟ اس دورے کی سب سے اہم بات اینٹی راکٹ ایس400 میزائل نظام کی فراہمی تھی، جو اب شروع بھی ہوچُکی ہے۔اس کے علاوہ، چار مزید دفاعی معاہدے ہوئے، جن کا مقصد روس کا بھارت کو جدید اسلحہ فراہم کرنا تھا۔ امریکا اس میزائل نظام کی خریداری پر پہلے ہی بھارت کو اپنے تحفّظات سے آگاہ کرچُکا ہے۔
صدر پیوٹن نے بھارت کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی سے ملاقات کی، جو افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے پس منظر میں بہت اہم تھی کیوں کہ دونوں کا اسی خطّے سے تعلق ہے اور دونوں ہی افغانستان سے تعلقات رکھتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صُورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا۔پاکستان کو افغان معاملات میں جو اہمیت حاصل ہوئی ہے، اُس پس منظر میں بھارت کی خواہش ہے کہ وہ روس کی مدد سے وہاں فعال کردار ادا کرے۔گزشتہ سالوں میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہت بہتری دیکھی گئی، اعلیٰ سطح پر رابطے ہوئے اور دونوں ممالک کی باہمی قربت بھی بڑھی، بلکہ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کے ٹیک اوور اور امریکا کی واپسی کے بعد پاکستان، افغانستان، روس اور ایران کے قریبی تعاون کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ادھر علاقے کی بڑی قوّت چین پر روس کا انحصار بہت بڑھا ہے، جس کی بنیادی وجہ ماسکو کی کم زور معیشت ہے۔ اگر ایسے بھی دیکھا جائے، تو اب خطّے میں چین ہی اہم ہے، خاص طور پر اقتصادی میدان میں وہ سب سے بڑی قوّت ہے، جب کہ روس تو صرف اُس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔بائو فورم بھی چین ہی کا ہے۔نیز، چین کے پاکستان سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔چین اور بھارت کے درمیان گزشتہ دو سالوں میں کئی مواقع پر سرحدی تنازعات نے فوجی جھڑپوں کی شکل اختیار کی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو صدر پیوٹن کا دورۂ بھارت بہت اہمیت کا حامل ہے، جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بھارت کا جھکائو اب کس طرف ہو رہا ہے؟
روس اور بھارت کے تعلقات طویل تاریخ کے حامل ہیں، جو اُسی دن شروع ہوگئے تھے، جس دن بھارت وجود میں آیا۔یہ تعلقات سرد جنگ کے زمانے سے چلے آرہے ہیں اور بھارت اُس زمانے میں امریکا کے مقابلے میں ماسکو کے زیادہ قریب رہا۔بھارت کے پہلے وزیر اعظم، جواہر لال نہرو نے ان تعلقات کی مضبوطی میں خاصی دل چسپی لی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت کی قیادت اُس دور میں خود کو سوشلسٹ خیالات کی حامی بتاتی تھی۔ دہلی غیر جانب دار تحریک کا بہت فعال رکن تھا، جس کا مقصد امریکی دفاعی حصار کے گرد گھیرا ڈالنا اور اُس پر ضرب لگانا تھا۔
اس میں بھارت کے ساتھ چین بھی شامل تھا۔ جب کہ مسلم دنیا کے اہم لیڈر اور مُلک بھی اس کا حصّہ بنے، جن میں انڈونیشیا کے سوئیکارنو اور مِصر کے جمال ناصر شامل تھے۔اسے’’ افرو ایشین اتحاد‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اس کا بنیادی نعرہ استعماریت اور نوآبادیات کے خلاف تھا۔پاکستان اُس وقت امریکی بلاک کا حصّہ تھا اور دو طرفہ معاہدوں کے علاوہ سیٹو اور سینٹو کا بھی رُکن تھا۔یہ معاہدے بنیادی طور پر کمیونزم کو روکنے کے لیے تھے۔ سوویت روس اُس زمانے میں بھارت کے بہت قریب آچُکا تھا۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ ان معاہدوں میں اپنے دفاع کی مضبوطی کے لیے شامل ہوا کیوں کہ اُسے بھارت سے خطرہ تھا، جس سے کشمیر پر تنازع چل رہا تھا۔ اِسی دشمنی میں غیر جانب دار تحریک میں بھی پاکستان کو رکنیت نہ مل سکی۔ بھارت ،سوویت یونین قربت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا فوجی اسلحہ زیادہ تر سوویت روس ہی کا فراہم کردہ ہے۔1965 ء اور1971 ء کی پاک، بھارت جنگوں میں اُس نے اسی فوجی ساز و سامان اور تربیت سے کام لیا۔دونوں جنگوں میں سوویت یونین نے بھارت کا ساتھ دیا، گو کہ تاشقند معاہدہ بھی کروایا۔ 1971 ء کی جنگ میں اُس نے بھرپور طریقے سے اور کُھل کر بھارت کا ساتھ دیا۔اگست1971 ء میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا، جس کے تحت دسمبر جنگ میں سوویت یونین نے بھارت کے فوجی اقدامات میں شرکت کی۔سفارتی محاذ پر سوویت یونین نے 1971 ء کی جنگ شروع ہونے کے بعد اُس وقت تک جنگ بندی روکنے کی قراردادیں ویٹو کیں، جب تک بھارتی فوجیں ڈھاکا میں داخل نہ ہوگئیں اور بنگلا دیش وجود میں نہ آگیا۔سقوطِ ڈھاکا پاکستانیوں کو بھولتا نہیں کہ یہ اُن کا ایک تاریخی زخم بن گیا ہے۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا اور عالمی سیاست نے کروٹ لی۔سوویت روس کے خلاف مغربی طاقتوں نے فیصلہ کُن معرکہ شروع کیا، جس کا مقصد روسی کمیونزم کا خاتمہ تھا۔ سوویت یونین نے بنیادی غلطی یہ کی کہ افغانستان میں فوجی دخل اندازی کردی، جس نے مغربی ممالک کو اس پر فوجی ضرب لگانے کا موقع فراہم کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنی بحری فورس کو بحرِہند کے گرم پانیوں میں طاقت وَر بنائے کیوں کہ اُس وقت تھیوری یہ تھی کہ جس مُلک کے پاس سمندروں کی حکم رانی ہے، وہی دنیا کا اصل سُپر پاور ہے۔ افغانستان میں دخل اندازی کے بعد اُس کا براہِ راست ٹکرائو پہلے پاکستان اور پھر مغربی طاقتوں سے ہوا۔1971 ء کے بعد پھر روس اور پاکستان فوجی میدان میں آمنے سامنے تھے، گو اِس بار مقاصد مختلف تھے۔ مغرب نے اُسے جنگی طور پر افغانستان میں اُلجھا لیا، جب کہ اُن کا اصل محاذ مشرقی یورپ کو آزاد کروانا تھا۔ سوویت روس، افغانستان کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آخر کار اُسے فوجی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ مغربی قوّتوں نے کوئی گولی چلائے بغیر مشرقی یورپ کو روس سے آزاد کروا لیا۔1990 ء تک سوویت یونین بکھر کر روس میں اس طرح سمٹی کہ وہ طاقت سے تو گئی ، اپنے علاقے بھی کھو دئیے۔ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں، سوویت روس، افغانستان سے نکلا اور اُس کے ساتھ ہی معاشی طور پر دیوالیہ ہوگیا، جس کے اثرات سے وہ آج تک آزاد نہ ہوسکا۔
اس تمام آزمائش کے دَور میں بھی بھارت اور روس کی دوستی مضبوط رہی۔جب کہ پاکستان میں روسی شکست کو مجاہدین اور اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کی فتح کہا گیا۔ بار بار دُہرایا جاتا ہے کہ افغان سرزمین بڑی طاقتوں کی شکست کا میدان ہے۔تاہم، اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ اس فتح کی قیمت افغان عوام کو کیا ادا کرنی پڑتی ہے؟اُن کا مُلک کھنڈر، تباہ حال اور پس ماندگی سے نکل ہی نہیں پاتا اور خود عوام دوسرے ممالک کی امداد کے محتاج رہتے ہیں۔ترقّی، جو دنیا کے ہر مُلک کے عوام کو سہولتیں اور خوش حالی دے رہی ہے، افغان عوام کے لیے ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
خطّے اور عالمی سیاست، خاص طور پر اقتصادی نقشے میں تبدیلی کے بعد بھارت اور روس کے درمیان کئی سنگین چیلنجز بھی سامنے آئے۔چائنا رائیز اور جنوب مشرقی ایشیا میں ایشین ٹائیگرز جیسے معاملات ان کے محرّک بنے۔چین نئی صدی کے آغاز تک دنیا میں اپنے فُٹ پرنٹ مضبوط کرنے لگا۔بھارت، جو چین سے ایک جنگ لڑ چُکا ہے، اُس سے دوستی کے لیے بڑھا اور دونوں کے درمیان تعلقات قائم ہوئے اور آج دونوں کے درمیان اقتصادی روابط نے باہمی تجارت ایک سو بلین ڈالرز سے اوپر پہنچا دی ہے۔دوسری جانب، بھارت دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہونے کی وجہ سے خود بھی معاشی طور پر طاقت وَر بنا۔اسی لیے اس نے گزشتہ صدی کو ماضی کا حصّہ جانتے ہوئے یوٹرن لیا اور امریکا سے دوستی بڑھانا شروع کی۔
یہ دوستی اتنی بڑھی کہ وہ امریکا سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی لے چُکا ہے، جب کہ کواڈ فورم میں بھی شامل ہے، جو چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ روس اب تک بھارت کے اقدامات نظرانداز کرتا رہا، لیکن کواڈ فورم کی حالیہ میٹنگ پر وہ ضبط نہ کرسکا اور اس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت، کواڈ فورم میں شامل ہو کر انڈوپیسیفک میں چین کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ایک طرح سے یہ بھارت اور روس کے درمیان سُرخ لکیر ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر دونوں ممالک کے رہنماؤں نے کُھل کر بات کی ہوگی اور روس نے اپنے تحفّظات کا اظہار بھی کیا ہوگا۔
روسی صدر نے بھارت کو عظیم طاقت، دوست مُلک اور مشکل وقت کا ساتھی قرار دیا۔یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی، منشیات، منظّم جرائم اور اسمگلنگ کے خلاف تعاون بڑھانا ہوگا، لیکن اس دورے میں جو ٹھوس نتائج سامنے آئے، وہ فوجی نوعیت کے حامل ہیں۔ ایک تو دفاعی میزائل نظام، ایس۔400 کی تنصیب ہے، جو بیک وقت80 میزائلوں کو تباہ کرسکتا ہے۔ یہ400 کلو میٹر کی رینج رکھتا ہے اور ماہرین کے مطابق، اس نظام سے بھارتی فوجی نظام میں چین اور پاکستان سے مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، اِسی لیے امریکی دھمکیوں کے باوجود دہلی نے اسے لیا۔ دوسرا معاہدہ چھے لاکھ اے کے 203 رائیفلز کی بھارت میں تیاری سے متعلق ہوا۔پھر ملٹری ٹو ملٹری ٹیکنالوجی کے تعاون کا دس سالہ معاہدہ بھی اہم ہے۔
معاشی میدان میں تیل سپلائی کا ایک سالہ معاہدہ بھی ہوا۔بھارت دنیا کے دوسرا بڑا اسلحہ خریدنے والا مُلک ہے، جو عالمی اسلحہ تجارت کا دس فی صد بنتا ہے۔اب تک بھارت کو سب سے زیادہ ہتھیار روس ہی فراہم کر رہا ہے۔گو یہ ستّر فی صد سے گھٹ کر پچاس فی صد پر آگیا ہے۔پہلے روس کے بعد امریکا، بھارت کو اسلحہ دینے والا دوسرا بڑا مُلک تھا، لیکن اب اسرائیل اور فرانس نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔البتہ، بھارت اور روس کے درمیان تجارت بہت کم ہے، جو تقریباً بارہ ارب ڈالرز کے قریب ہے، جسے دونوں ممالک تیس ارب ڈالرز تک لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ جب کہ امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم146 ارب ڈالر ہے۔امریکا سے بھارت کی قربت کی یہ ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پوسٹ کووڈ دور میں نریندر مودی، امریکا اور روس کے صدور کے ساتھ یورپ کے بڑے رہنماؤں اور برطانوی وزیر اعظم سے فیس ٹو فیس ملاقات کرچُکے ہیں، جب کہ ان کے چینی صدر سے ٹیلی فون پر رابطے رہے۔یہ براہِ راست ملاقاتیں بین الاقوامی ڈپلومیسی میں اہم ہوتی ہیں۔سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں عالمی سطح پر جس قسم کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کے مستقبل کے تعیّن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
صدر پیوٹن اور وزیر اعظم، مودی کے درمیان جس معاملے پر زیادہ فوکس رہا،ماہرین کے مطابق وہ افغانستان کا معاملہ تھا۔ روس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، وہ شمالی اتحاد کو سپورٹ کرتا ہے اور طالبان پر نمایندہ حکومت کی تشکیل کے لیے زور دے رہا ہے۔ یہی موقف بھارت کا بھی ہے اور باقی دنیا کا بھی۔طالبان کے اسلام آباد سے اچھے تعلقات کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ بھارت، روس کے ذریعے چاہے گا کہ افغانستان میں اُس کے کردار میں اضافہ ہو۔وہ حال ہی میں پاکستان کے راستے پچاس ہزار ٹن گندم بھجوانے میں کام یاب رہا۔افغانستان میں جو انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اُس نے طالبان کو مجبور کردیا کہ وہ ہر طرف سے انسانی بنیادوں پر آنے والی امداد، خاص طور پر ادویہ اور خوارک وغیرہ قبول کریں۔بھارت نے طالبان حکومت سے قبل بھی وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی اور اسے امریکا کا تعاون حاصل تھا، اب وہ روس کی سپورٹ سے اس کا اعادہ چاہے گا۔ یہ وہ نقطہ ہے، جس کے باعث روس، بھارت کی بہت سی بے اعتدالیاں نظر انداز کر رہا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اُسے طالبان پر دبائو ڈالنے کا راستہ مل سکتا ہے اور وہ بھارت سے بھی بہت کچھ منوا سکتا ہے۔ طالبان کہہ چُکے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی تمام ممالک سے اچھے تعلقات پر مبنی ہے، خاص طور پر وہ موجودہ صورتِ حال میں امداد کو خوش آمدید کہیں گے۔
پاکستان کے لیے روس اور بھارت کے دفاعی معاہدے تشویش کا باعث ہیں کیوں کہ اس سے جنوبی ایشیا میں فوجی طاقت کا توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔ ایس۔400 میزائل جدید نظام ہے، اس سے قبل 2014 ء میں یہ نظام روس سے چین نے خریدا۔بہت سے فوجی ماہرین ایس۔400 سے آئرن ڈوم دفاعی نظام کا موازنہ کرتے ہیں کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ یہ اینٹی راکٹ سسٹم ہے۔امریکا کا پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام بھی اسی مقصد کے لیے نصب کیا جاتا ہے۔یہ سعودی عرب کے پاس ہے، جسے وہ بڑی کام یابی سے استعمال کرتا ہے۔ تُرکی نے بھی حال ہی میں یہ نظام روس سے حاصل کیا، جس پر اس کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوئے، کیوں کہ وہ نیٹو میں شامل ہے۔
اس کے ساتھ چھے لاکھ رائیفلز کی تیاری اور دس سالہ فوجی ٹیکنالوجی کے تعاون کے معاہدے روس کی کام یاب اسلحہ مارکیٹنگ کی ڈپلومیسی کہی جاسکتی ہے۔تمام ممالک اسلحہ میں تخفیف کی باتیں کرتے ہیں، لمبے چوڑے بیانات دیتے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ اسلحہ سازی کی صنعت ایک انتہائی منافع بخش صنعت ہے اور اس کے خریدار عموماً کم ترقّی یافتہ یا وہ ممالک ہیں، جو تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، کیوں کہ انہیں ہر وقت سیکیوریٹی کے معاملات درپیش رہتے ہیں۔بھارت بھی ایک بہت بڑی فوج رکھتا ہے اور اسی لیے وہ اسلحہ بنانے والے ممالک کے لیے پُرکشش مارکیٹ ہے۔
ایٹمی طاقت رکھنا تو بس ایک علامتی سی چیز ہے، اصل استعمال تو روایتی ہتھیاروں ہی کا ہوتا ہے۔پاکستان کے لیے دوسری تشویش بھارت کے افغانستان میں کردار کی ہے، جسے وہ یک سَر مسترد کرتا رہا ہے۔اس کا اس بات پر امریکا سے کھچائو بھی رہا۔ امریکا تو اب خطّے سے جا چُکا ہے اور اب چین اور روس علاقے کی بڑی طاقتیں ہیں، جو افغانستان کے پڑوسی بھی ہیں۔ اسلام آباد کی گزشتہ کئی برسوں سے یہ کوشش رہی ہے کہ اگر وہ روس کو ساتھ نہیں ملا سکتا، تو کم ازکم بھارت کے معاملے میں اُسے غیر جانب دار کردے۔
اسے اس میں کچھ کام یابی بھی ہوئی ہے۔ روس اور پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں اور پھر روسی ہیلی کاپٹرز کی خریداری اس پالیسی کا حصّہ ہے۔ لیکن بھارت اور روس میں جس قسم کی مضبوط دوستی ہے اور مشترکہ مفادات ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے یہ کام آنے والے وقتوں میں بھی چیلنج ہی رہے گا۔