الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے الیکشن پر 350 ارب روپے خرچ ہونگے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بنیاد پر کرائے جانے والے الیکشن کے اخراجات کے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا تخمینہ 200؍ ارب روپے ہے جبکہ ایک جنرل الیکشن کیلئے مجموعی تخمینہ 350؍ ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
ای سی پی کے سینئر ذرائع کا کہنا ہے کہ ای وی ایم کی بنیاد پر الیکشن کرانے کیلئے مختلف قوانین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی۔
تاہم، اگر الیکشن کمیشن حتمی طور پر یہ فیصلہ کر لے کہ وہ 2023ء کے عام انتخابات الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے کرائے گا تو اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
ایک ذریعے کے مطابق، 200؍ ارب کے ابتدائی تخمینے میں تربیت، سیکورٹی اور سائبر سیکورٹی اور دیگر اقدامات کیلئے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
ہائی لیول کمیٹیوں کی ابتدائی رپورٹ کے حوالے سے ذریعے کا کہنا تھا کہ سنجیدگی کے ساتھ ای وی ایم سسٹم متعارف کرانے کیلئے ای سی پی کا مقابلہ وقت سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ کام کر پاتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ اُس وقت ہوگا جب کمیٹیاں اپنا کام مکمل کرکے اپنی رپورٹس الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائیں گی جس کے بعد اُن رپورٹس پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹیاں ممکنہ طور پر اپنا کام جنوری 2022ء میں مکمل کر لیں گی۔ ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کرانے کے امکان پر ای سی پی نے گزشتہ ماہ تین کمیٹیاں تشکیل دی تھیں جنہیں اپنا کام مکمل کرنے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ ایک ماہ کا وقت گزشتہ ہفتے مکمل ہو چکا ہے لیکن کمیشن نے ان کمیٹیوں کی ڈیڈلائن میں دس روز کا اضافہ کیا ہے۔ ۔
ایک کمیٹی سیکریٹری الیکشن کمیشن کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے جس کا کام الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم لانے کیلئے ضروری تبدیلیوں پر غور کرنا تھا۔
کمیٹی کے مفصل شرائطِ کار تیار کیے گئے تھے جن کے تحت اسے مختلف ملکوں میں زیر عمل ووٹنگ کے طریقوں پر غور کرنا تھا۔
یہ مرکزی کمیٹی ایسے موزوں سسٹم پر بھی بحث و مباحثہ کرے گی جس پر پاکستان میں عمل کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کمیٹی پروکیورمنٹ، سیفٹی اور مشینوں کو محفوظ رکھنے کے معاملات پر بھی غور کرے گی۔
دوسری کمیٹی ایڈیشنل سیکریٹری ای سی پی کے ماتحت قائم کی گئی تھی جس کا کام نئے ووٹنگ سسٹم کے مالی پہلوئوں پر غور کرنا اور یہ بتانا تھا کہ نئے سسٹم سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا۔
تیسری کمیٹی ڈی جی لاء کے ماتحت بنائی گئی تھی جو موجودہ قوانین پر غور کر کے آئین میں ممکنہ تبدیلیوں کی تجویز پیش کرے گی۔