(قدرت روزنامہ)عام طور پر یہی رائج ہے کہ بچے یا بچی کے کان میں مرد ہی اذان دیتا ہے مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شریعت نے نومولود کے کان میں اذان دینے کی اجازت خواتین کو دی ہے . ؟ اے آر وائی کیو ٹی وی پر سوال پوچھا گیا کہ کیا عورت بچے کے کان میں اذان دے سکتی ہے؟
جس کا مفتی اکمل قادری نے شرعی تعلیمات کی روشنی میں جواب پیش کیا .
اُن کا کہنا تھا کہ ’’ جی ہاں ! عورت بالکل بچے کے کان میں اذان دے سکتی ہے، کیونکہ یہ بلند آواز سے نہیں دینی ہوتی بلکہ نومولود کے کان میں آہستہ سے دینا ہوتی ہے‘‘ . ’’عورت کی آواز تیز ہونا ممنوع اور مکروہ تحریمیہ ہے، یعنی بلاضرورت اُس کی آواز کہیں اور جانا نہیں چاہیے، نماز کے لیے بھی وہ بلند آواز سے اذان نہیں دے سکتی البتہ بچے کے کان میں اذان آہستہ دی جاتی ہے اور اس کا مقصد ذکرمسلم گھرانے میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر کا بڑا یا کوئی بھی شخص اُس کے سیدھے کان میں اذان اور الٹے کان میں اقامت پڑھتا ہے . عام طور پر لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نومولود کے دادا، والد ، چاچا ، نانا، ماموں وغیرہ یہ کام انجام دیں، بعض اوقات باقاعدہ کسی موذن یا مولوی کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں . بچے کے کان میں اذان دینے کے حوالے سے احادیث کی کتابوں میں مختلف مستند روایتیں موجود ہیں،الہٰی بچے کے کان تک پہنچانا ہوتا ہے تاکہ دماغ میں وہ محفوظ ہوجائے اور برکات بچے کو حاصل ہوں‘‘ . مفتی اکمل قادری کا کہنا تھا کہ’’بالکل عورت بچے کے کان میں اذان دے سکتی ہے، اس حوالے سے کوئی ممانعت نہیں ہے‘‘ .
. .