سعودی عرب میں نئے پاکستانی سفیر کی تقرری لٹک گئی!! بلال اکبر اب تک عہدے پر کیوں تعینات ہیں؟

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)دو ماہ ہوئے پاکستان نے سعودی عرب کیلئے اپنے سفیر کے نام کا اعلان کیا ہے لیکن معلوم ہوا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر بدستور ریاض میں عہدے پر کام کر رہے ہیں اس لئے نئے سفیر کی جانب سے عہدہ سنبھالنا ابھی باقی ہے۔ روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق نئے سفیر کیلئے

امیر خرم راٹھوڑ کو مقرر کیا گیا تھا اور پورا عمل عجیب و غریب تھا۔ صرف چار ماہ قبل ہی انہوں نے کینیڈا میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا اور ابھی وہ وہاں معاملات سنبھالنے ہی لگے تھے کہ انہیں ریاض میں سفیر لگانے کی بات بتائی گئی۔ جب وزیراعظم عمران خان ریاض پہنچے تو امیر خرم سے کہا گیا کہ وہ فوراً ریاض پہنچیں۔ اس کے بعد ایک تصویر بھی جاری کی گئی تھی جس میں راٹھوڑ کو وزیراعظم کے ساتھ بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ وہ نیا عہدہ نہیں سنبھال رہے؟ وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے اُن کے نام کی منظوری دینے کے بعد نئے سفیر عہدہ سنبھال لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر بلال کے معاملے میں میزبان حکومت نے تین ماہ میں منظوری دی تھی۔ انہیں جنوری میں رواں سال اپائنٹ کیا گیا تھا لیکن چارج انہوں نے اپریل میں سنبھالا۔ بلال دوسرے سفیر ہیں جنہیں عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے قبل ہی انہیں واپس بلا لیا گیا ہے۔ ان سے قبل راجہ اعجاز علی کو ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ہی معطل کرکے مختصر نوٹس پر واپس بلا لیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے دوران ان کی سرزنش کی تھی۔ ان کے علاوہ، ڈپلومیٹک، کمیونٹی ویلفیئر، قونصلر ونگ کے 6؍ افسران کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ سفیر کو واپس بلانے کی وجہ پاکستانی کمیونٹی کی بڑھتی شکایات تھیں۔ تاہم، اس فیصلے پر وزارت خارجہ کی بیوروکریسی نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور کچھ ریٹائرڈ سفارت کاروں نے باضابطہ احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ تاہم، بلال کو عہدے سے ہٹایا جانا ایک راز ہے۔ بظاہر ان کیخلاف کوئی شکایت بھی نہیں تھی۔ وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ حکومت دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے اور راٹھوڑ ایک بہتر چوائس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کے پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔