اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ میں پولیس آرڈر پر عمل نہ ہونے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہر ادارے نے ریئل اسٹیٹ کا بزنس کھولا ہوا ہے .
دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کس طرح قبضے ہوتے ہیں اور کس طرح لوگوں کو اٹھاتے ہیں، پٹواری اور ایس ایچ او کی مرضی کے بغیر قبضہ ہو ہی نہیں سکتا، آپ کورٹ کو تجویز دے دیں کہ عدالت کیا کرے؟
انہوں نے کہا کہ اداروں نے اپنے نام سے سوسائٹیاں بنائی ہوئی ہیں، وزارتِ داخلہ کی بھی سوسائٹی ہے، اس سے بڑا مفادات کا ٹکراؤ اور کیا ہو سکتا ہے؟ 2015ء کے پولیس آرڈر پر عمل نہیں کیا جا رہا، عدالت نے بڑی مشکل سے کچہری شفٹ کرنے کی کوشش کی، وزیرِ اعظم کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے .
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ غریب آدمی کے لیے فیصلہ آتا ہے تو میڈیا بھی رپورٹ نہیں کرتا، بڑے آدمی کو کچھ ہو جائے تو پوری مشینری وہاں پہنچ جاتی ہے، ہر آفیشل آتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس یہ آئی واش ہے، اس عدالتی آرڈر کی کاپی سب کے پاس گئی مگر کسی نے نہیں پڑھی ہو گی .
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ سیکریٹری داخلہ نے بھی یہ عدالتی فیصلہ نہیں پڑھا ہو گا، یہاں پیش ہونے والے تفتیشی افسران کو تحقیقات کا بالکل علم نہیں ہوتا، عدلیہ بدنام ہوتی ہے کہ 136 میں سے 130 نمبر پر آ گئی ہے، زمین نہیں ہوتی مگر سوسائٹی بناتے ہیں، قبضے کرتے ہیں، قبضہ مافیا کو تحفظ دیتے ہیں .
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر بھی بے بس ہیں، ایک قیدی نے 4 صفحات کا خط لکھا کہ جیلوں کے اندر سے جرائم ہو رہے ہیں، جو ہو رہا ہے وہ قابلِ قبول نہیں، بالخصوص اس معاشرے میں جس ملک کا آئین بھی ہو . چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو سمیت پولیس نے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رکھی ہیں، 60 سال پہلے جن سے زمینیں لی ہیں انہیں آج تک ادائیگی نہیں کی گئی اور کوئی سننے والا نہیں .
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے منظوری دی ہے، نیا پولیس ایکٹ جلد نافذ ہو جائے گا .