عمران خان کس کے ایجنٹ ہیں؟ سہیل وڑائچ نے اصلیت قوم کے سامنے رکھ دی، سب کو لاجواب کر دیا
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ تحریک انصاف کی پارٹی فنڈنگ کیس میں سامنے آنے والی بدانتظامی تو ایک طرف لیکن مجھے وہ کسی کے ایجنٹ نہیں لگتے، وہ کس کا ایجنڈا لیکر آئیں گے؟ وہ تو خود اپنے ہی ایجنٹ ہیں۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوال
کریں کہ عمران خان کو کس بیرونی ایجنسی نے امداد دینی ہے؟ وہ کسی کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ اگرچہ میں ان کی پالیسیوں کا ناقد ہوں لیکن وہ کسی کے ایجنٹ نہیں لگتے، وہ اپنے ہی ایجنٹ ہیں۔ ان کی اپنی ہی ایک سوچ ہے میرا نہیں خیال کہ عمران خان کو دنیا کے کسی ملک سے فنڈنگ ہوئی ہو گی۔سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ پر الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اتنی منظم نہیں ہیں کہ وہ اپنے فنڈز کا حساب رکھ سکیں اس لیے آرٹیکل 62 یا 63 کی بنیاد پر کسی کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو آئین سے نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ اصل آئین پاکستان کا حصہ نہیں تھے ان کو تو بعد میں شامل کیا گیا تھا۔ ان آرٹیکلز کا مقصد صرف دوسروں کو نشانہ بنانا تھا میں سمجھتا ہوں کہ ان آرٹیکل کی بنیاد پر نہ تو عمران خان کو اور نہ ہی نوازشریف کو نشانہ بنایا جانا چاہیے۔دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وقت نے ہمارے موقف کو درست ثابت کر دیا کہ عمران خان عالمی طاقتوں کا مہرہ ہے، عمران خان کو ملکی سلامتی اور مسلم قوم کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں، ان کا ساڑھے تین سالہ دور اس قوم کے مستقبل پہ تباہ کن اثرات ڈال گیا۔مولانا فضل الرحمان نے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ ہم سب کے لئے چشم کشا ہے، عمران خان نے الیکشن کمیشن سے ان 53 اکاؤنٹس کو چھپایا، بیرون ملک سے کئی مشتبہ اداروں اور افراد کی طرف سے پی ٹی آئی کو فنڈنگ کی جا رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ قوم کو بتایا جائے مغرب و مشرق کے کن افراد اور کن تنظیموں نے پی ٹی آئی کو مالی مدد دیکر کون کون سے مقاصد حاصل کئے۔ ثابت ہو گیا کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے الزامات درست تھے، اکبر ایس بابر کی حب الوطنی اور ثابت قدمی کے معترف ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ اب ملکی اداروں کو بھی قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ پہلے ہی اہم مقدمے کو نمٹانے میں غیر معمولی تاخیر نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔