عمران خان کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کرنے اور دھرنے میں ناچ گانے اور رقص و سرور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی فنکار برادری کیساتھ وزیر اعظم نے حکومت میں آتے ہی کیا ہاتھ کیا؟؟ فنکار برادری اور سابق حکمرانوں کے درمیان کیسے تعلقات تھے ،چونکا دینے والی معلومات۔

لاہور(قدرت روزنامہ)جب ہم دل ہی دل میں کسی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور پھر جب یہ توقعات پوری نہ ہوں تو گلہ پیدا ہونا لازم ہے۔ ہماری فنکار برادری کے دل عمران خان کی حکومت میں شاید اس لیے ٹوٹ گئے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے 2014کے دھرنے میں ناچ گانے اور رقص و سرور کے تسلسل کو مدِنظر رکھ کر اُن سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔

ناصر بشیر اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں فنکارسمجھ رہے تھے کہ عمران خان کی حکومت آئے گی تو فنکاروں کی سرپرستی پچھلوں سے بڑھ کر کی جائے گی۔ ان کے دن پھر جائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اس کا سب سے بڑا سبب کورونا تھا جس نے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح تھیٹر کو بھی بریک لگا دی تھی۔ پچھلے دو برسوں سے تھیٹر مسلسل ’’آئی سی یو‘‘ میں ہے۔ جب دیکھتے ہیں کہ اس مریض کی سانس اکھڑ رہی ہے تو چند دنوں یا ہفتوں کے لیے اسے کھول دیا جاتا ہے۔ یوں کہیے کہ ’’آکسیجن‘‘ لگا دی جاتی ہے جب اس میں زندگی کی تھوڑی سی رمق پیدا ہوتی ہے تو آکسیجن ہٹالی جاتی ہے، ہماری فنکار برادری نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس مسلسل صدمے کو حوصلے اور صبر سے برداشت کیا۔ دل پر جبر کیا، اندر سے روتے رہے سب کے سامنے ہنستے رہے۔ جب دوسروں کو ہنسانے والے لوگ رونے پر مجبور ہو جائیں تو سمجھ لیجیے کہ حالات بہت گھمبیر ہیں موجودہ حکومت میں زبان غیر سے شرح آرزو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دلوں کی رنجشیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جن دنوں شوکت خانم ہسپتال بنانے کے لیے تگ ودو کر رہے تھے ان دنوں ہماری فنکار برادری ان کےساتھ کھڑی تھی۔ چندہ مہم میں عمران خان کا جتنا ساتھ فنکاروں نے دیا اتنا زندگی کے کسی اور طبقے کے لوگوں نے نہیں دیا لیکن زبان غیر سے شرح آرزو کرنےوالی اس حکومت میں کچھ’’گل‘‘ تو پیدا ہوئے ہی تھے گلے بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

شہباز گل صاحب اپنی بزلہ سنجی اور نکتہ تراشی کے باعث فنکار برادری کو کچھ اپنے اپنے لگتے تھے لیکن جب انہوں نے کچھ فنکاروں کی پرانے پاکستان کے علم بردار میاں نواز شریف سے چند لمحوں کی ملاقات پر ’’گل افشانی ‘‘ فرمائی تو ہمارے حساس فنکاروں کے دل ٹوٹ گئے انہیں ہمارے پڑھے لکھے اور مدبر ترجمان شہباز گل صاحب نے بھی وہی کہا جو کم فہم اور نادان لوگ برسوں سے کہتے چلے آ رہے ہیں۔ جنرل ضیاالحق بہت سے پاکستانی فنکاروں کے قدردان تھے۔انہوں نے پاکستانی اردو فلموں کے ہیرو محمد علی کو ایک بھارتی فلم ’’کلرک‘‘ میں کام کرنے کی اجازت دی۔ یہ اس شخص کا کردار ہے جو اہل سیاست اور جمہوریت کے علمبرداروں کو کبھی پسند نہیں رہا۔میں خود بھی ان کے صرف اسی پہلو کا مداح ہوں کہ وہ ایک فنکار دوست آدمی تھے اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ان کی کوئی خاص حکمت عملی تھی یا شخصیت کا حقیقی پہلو تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی فنکاروں کو اپنے قریب رکھنے کی کوشش کی۔اداکار اور کمپیئر طارق عزیز کو سیاست کا چسکا بھٹو صاحب ہی نے لگایا تھا۔ فلمی ہیرو محمد علی تو بھٹو صاحب کے جاں نثاروں میں شامل تھے۔ یہاں تک کہ وہ تمام خدشات اور خطرات کو بالائے طاق رکھ کر بھٹو صاحب کو جیل میں ملنے بھی جاتے تھے۔ بھٹو صاحب کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کا رویہ بھی ہمیشہ ایسا رہا کہ فنکار ہمیشہ خوش رہے۔ ان کے دور میں فلم اور تھیٹر کے اداکاروں کو بہت سی مراعات دی گئیں

میاں محمد نواز شریف کی فلمی اداکاروں سے محبت فطری تھی سبب اس کا یہ تھا کہ ان کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کا زمانہ ہماری فلمی صنعت کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس محبت کا دوسرا سبب یہ تھا کہ ان کا تعلق پاکستان کے اس شہر سے ہے جسے عرف عام میں لالی وڈ کہا جاتا ہے۔ کئی بڑے اداکاروں سے میاں محمد نواز شریف کا ذاتی تعلق تھا، الیاس کشمیری ایسے کئی بڑے اداکاروں سے میاں محمد نواز شریف کا ذاتی تعلق تھا۔ الیاس کشمیری اور رنگیلا ان کے خاص دوست تھے۔ الیاس کشمیری کی دلیری اور بڑھک انہیں پسند تھی اور رنگیلا کی حاضر جوابی میاں صاحب کو گانے کا بھی شوق ہے اور اب تو یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ میاں صاحب کی ساری فیملی سریلی ہے فن اور فنکار سے ربط رکھنے والے لوگ بہت درد مند اور کھرے ہوتے ہیں یہی خوبیاں مجھے میاں نواز شریف میں بھی نظر آتی ہیں ان کے پرانے پاکستان میں فنکاروں کو ہمیشہ اہمیت دی گئی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فنکار ناراض ہو کر اپوزیشن کے سیاست دانوں سے ملنے چلے گئے ہوں۔ موجودہ حکومت سے اگر فنکاروں کو گلے ہیں تو اس میں حالات کی ستم ظریفی کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ کورونا کی وجہ سے سب کچھ بند رہا وہ تو بھلا ہو ہمارے محترم شاعرظفر اقبال صاحب کے فرزند ارج مند آفتاب اقبال کا کہ انہوں نے تھیٹر کو ٹیلی وژن اسکرین پر منتقل کر دیا۔

آفتاب اقبال بیروزگار فنکاروں کو اپنے ساتھ ساتھ مختلف چینلوں پر لیے پھرتے ہیں نہ صرف یہ کہ انہیں بھاری معاوضہ ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ تھیٹر کے وہ فنکار جو کل تک فحش اور گھٹیا جگتیں مارنے کے لیے مشہور تھے آج قدرے مہذب بات کرنے لگے ہیں۔ اب ان کی جگت کم از کم اس نہج پر آ گئی ہے کہ اہل ِخانہ کے ساتھ بیٹھ کر اس کا مزہ لیا جا سکتا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان اگر ایک بار پھر فنکار دوستی کی روش اپنا لیں دور جانے والوں کو اپنے قریب بلالیں تو شاید گل صاحب کو کوئی ایسا ٹویٹ کرنا ہی نہ پڑے جس سے کسی کے دل میں کوئی گلہ پیدا ہو