پی ٹی آئی کو کلین چٹ دینے والی آڈٹ کمپنیاں بھی اسکروٹنی کمیٹی کے نشانے پر

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے غیر ظاہر شدہ بینک اکائونٹس سے پردہ اٹھایا بلکہ اُن چارٹرڈ اکائونٹنٹ کمپنیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جن کی خدمات پی ٹی آئی نے آڈٹ مقاصد کیلئے حاصل کی تھیں۔ دو کمپنیوں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے جن میں میسرز احسان اینڈ احسان اور دوسری مُنیف ضیاء الدین اینڈ کمپنی ہے۔ پہلی کمپنی کی خدمات 2010 سے 2012 کے درمیان پارٹی کو ملنے والے فنڈز کے خصوصی آڈٹ کیلئے حاصل کی گئی تھیں کیونکہ کچھ پارٹی ارکان نے شکایات کا اظہار کیا تھا۔
ان کے پاس ثبوت تھے کہ امداد (ڈونیشن) پی ٹی آئی کے تنظیمی اکائونٹس کی بجائے ملازمین کے اکائونٹس میں ڈالی گئی تھی۔ دوسری کمپنی پارٹی کے اکائونٹس کا مالی آڈٹ کرتی رہی ہے لیکن اُسے خفیہ اکائونٹس نظر نہیں آئے۔ جہاں تک میسرز احسان اینڈ احسان کا تعلق ہے تو کمپنی نے ’’عالمی معیارات‘‘ کو مد نظر رکھ کر اپنا خصوصی آڈٹ مکمل کیا اور رپورٹ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی جو اب بھی وہاں موجود ہے۔ اس پر پارٹی کی تعریفیں ہونے لگی تھیں کہ اس نے پارٹی کے اندر سے احتساب شروع کیا۔ تاہم، پریشان کن بات یہ ہے کہ رپورٹ پر آڈیٹر احسان جلال (چھوٹی کمپنی کے دو پارٹنرز میں سے ایک) کے دستخط ہی نہیں۔ میسرز احسان اینڈ احسان آڈٹ کمپنیوں کی نگرانی کرنے والے سب سے بڑے ادارے آڈٹ اوور سائٹ باڈی میں بھی رجسٹرڈ نہیں۔
خصوصی آڈٹ رپورٹ پر دستخط کا نہ ہونا بھی ایک پہیلی ہے۔ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار نے سوال اٹھایا تھا اور اسکروٹنی کمیٹی سے کہا تھا کہ آڈیٹر سے پوچھا جائے۔ ایسا نہیں کیا گیا، تاہم آڈٹ کمپنی کے کردار کا ذکر اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ کمیٹی نے اپنے مفصل جائزے کے بعد مشاہدہ پیش کیا ہے کہ آڈٹ رپورٹ بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار نہیں کی گئی اور اسے اسپیشل آڈٹ رپورٹ نہیں کہا جا سکتا۔
دی نیوز نے احسان جلال سے رابطہ کرکے پوچھا کہ انہوں نے دستخط کیوں نہیں کیا اور اس صورتحال میں آڈٹ رپورٹ کو بین الاقوامی معیارات کی حامل اسپیشل رپورٹ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس پر احسان جلال نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پہلے تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ کھل کر کوئی بیان نہیں دینا چاہتے کیونکہ وہ صرف اپنے کلائنٹس کو جوابدہ ہیں۔ لیکن جب اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے دستخط کیوں نہیں کیے کیونکہ یہ کام 8 سال پرانا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ ان کی کمپنی آڈٹ اوور سائیٹ باڈی میں رجسٹرڈ کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کمپنی چھوٹی ہے اور اکثر بڑی کمپنیاں ہی باڈی میں رجسٹریشن کراتی ہیں۔ میسرز احسان اینڈ احسان کے دوسرے پارٹنر احسان جلال کے والد ہیں اور کمپنی میں دو ہی پارٹنرز ہیں۔
دوسری کمپنی مُنیف ضیاالدین اینڈ کمپنی کا بھی ذکر اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں موجود ہے۔ اس کمپنی نے پی ٹی آئی کیلئے 2009 سے 2013 تک کے عرصے کا آڈٹ کیا اور ہر سال اکائونٹس کے حوالے سے کمپنی کی جائزہ رپورٹ میں یہی کہا گیا کہ ’’کھاتوں کا گوشوارہ شفاف ہے، تمام تر پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا، نقد اور ادائیگی کی رسیدیں دیکھ لی ہیں۔‘‘منیف اینڈ ضیا الدین کمپنی کے پارٹنر طارق سلطان جدون نے یہ آڈٹ کیا تھا۔ اسکروٹنی کمیٹی میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اپنی چارٹرڈ اکائونٹنٹ کمپنی تبدیل کر دی اور دوبارہ اُسی کمپنی کی خدمات حاصل کر لیں جس کی خدمات پہلے سال میں حاصل کی گئی تھیں۔
2013ء میں آڈٹ کمپنی نے تاریخ تک کا ذکر نہیں کیا۔ اسکروٹنی کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ بات اکائونٹنگ کے معیارات سے انحراف ہے۔ چارٹرڈ اکائونٹنگ کمپنی کہتی ہے کہ کھاتوں کا گوشوارہ شفاف ہے اور اس کے تمام تر پہلوئوں کا جائزہ لے لیا گیا ہے لیکن اسکروٹنی کمیٹی کہتی ہے کہ معیارات سے انحراف کیا گیا ہے کیونکہ اعداد و شمار بینک اسٹیٹمنٹس سے مطابقت نہیں رکھتے۔
رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ مذکورہ بالا باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹرڈ اکائونٹنٹ نے متعلقہ عرصہ کے دوران پارٹی کے اکائونٹس کو بینک اسٹیٹمنٹس کے ساتھ ری کنسائل (مطابقت) نہیں کیا اور اس کے باوجود پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو اپنے سرٹیفکیٹس (آراء) دیے جو پارٹی نے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرا دیے۔ موقف معلوم کرنے کیلئے دی نیوز کی جدون سے رابطے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے روزِ اول سے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سینٹر کیلئے معروف آڈٹ کمپنی اے ایف فرگوسن کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔
یہ پاکستان کی چار بڑی آڈٹ کمپنیوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، پی ٹی آئی کے اکائونٹس کا آڈٹ کرنے والی کمپنی منیف ضیاالدین اینڈ کمپنی متوسط درجے کی کمپنی سمجھی جاتی ہے۔