رپورٹ : ندیم خان
"ایک روز میں ہزارہ کمیونٹی کی کلنگ کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد ہزارہ کمیونٹی کے کافی لوگ وہاں جمع ہوئے . میں ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے باھر تھا کہ اندر دھماکہ .
ہوا میں بال بال بچا کیونکہ دھماکہ الوارڈ کے اندر ہوا میں باھر تھا . اس وقعہ کے بعد میری زہنی صحت متاثر ہوئی مجھے ریکور ہونے میں وقت لگا . "
یہ . الفاظ ہیں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد صحافی محمد غضنفر کے جوہ کہ . گزشتہ 15 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ" میں نے کافی مشکل وقت میں صحافت کی کہ کہ جب بلوچستان میں دہشت گردی عروج پہ تھی . 2008 سے لیکر 2013 تک کا . وقت کافی مشکل تھا . میرے کئی صحافی دوست بم دھماکوں میں مارے گئے جس میں سے نجی چینل کا کیمرہ مین شہذاد بھی شامل تھا . "
وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک روز سول ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے نے ان کو کافی دنوں تک متاثر کئے رکھا .
غضنفر بتاتے ہیں کہ تمام صحافیوں کو چاہئے کہ وہ پروفیشنل رہیں خاص طور پر جہاں کونفلکٹ ہو . صحافی بیلنس رپورٹنگ کرکے اپنے آپ کو خطروں سے بچا سکتے ہیں اور جہاں بم دھماکہ ہوا ہو تو صحافی محتاط رہے کیونکہ ڈبل بلاسٹ کا خظرہ ہمیشہ موجود رہتا .
صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق عالمی درجہ بندی میں پاکستان اس وقت آزادی صحافت کی فہرست میں 142ویں نمبر پر موجود ہے اور 2002 سے لے کر 2019 تک صحافیوں پر تشدد کے 699 واقعات ریکارڈ ہوئے . پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران 72 صحافیوں کا قتل ہوا جس میں 48 صحافیوں کو خبر دینے کی پاداش میں جب کہ دیگر 24 صحافیوں کو بھی دوران ڈیوٹی دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا اور گزشتہ سال بھی 6 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا .
روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر سے صحافیوں کے قتل، اغوا، تشدد یا انہیں ہراساں کیے جانے کی خبریں آنا اب معمول کی بات ہے .
صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات کے حوالے سے پاکستان پریس فریڈیم کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو 02-2001 میں کل 13 واقعات سامنے آئے لیکن 2014 سے 2016 تک ان واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد 95 تک جا پہنچی یعنی 12 سال کے دوران اگر ہم اوسطاً ان واقعات کا جائزہ لیں تو یہ 6 سے 32 تک جا پہنچی ہے . پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق مئی 2017 سے اپریل 2018 تک صحافیوں پر حملوں کے 157 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں تشدد، اغوا اور قتل جیسے واقعات شامل ہیں جب کہ 2018 میں 58 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا . صرف بلوچستان میں 40 سے ذائد صحافی مارے گئے ہیں .
رائے عامہ کی تشکیل میں صحافت کے کردار اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی چیز سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی گروہوں اور تحریکوں کو صحافت کو بطور پراپیگنڈہ استعمال کرنے کی جانب راغب کرتی ہے اور کبھی کبھار کئی صورتوں میں بعض طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت پر حاوی ہوکر صحافتی اقدار اور اصول کر پس پشت ڈالر کر مانی مانی خبروں کا مطالبہ کرتے ہیں، صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران نہ صرف غیر ریاستی عناصر بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے . صحافیوں کا کام شہریوں کو باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں بھی معلومات تک رسائی کو ہر شہری کا قانونی حق قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود آزادی اظہار ایک خواب ہی دکھائی دیتا ہے اور عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں اب تک سیکڑوں صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں .
حالیہ دور صحافت میں میڈیا چینلز کم وبیش عوامی مسائل کی نشاندہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جو صحافی جان جوکھوں میں ڈال کر کوئی رپورٹ حاصل کرلیتا ہے تو ادارے اس میں کسی قسم کی دلچسپی ہی ظاہر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ صحافی بھی اب ایسی خبروں کی کھوج کم ہی لگاتے ہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں . مثال کے طور پر اگر کوئی صحافی کراچی میں ٹرانسپورٹ کے خلاف کوئی رپورٹ دینا چاہے تو اسے ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جیسے کے ماضی میں جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو مافیا کے خلاف خبر دینے پر نشانہ بنایا گیا .
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق پاکستان ان 14 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر پر ہے جہاں صحافیوں کے قاتل نہیں ملتے، اگر مل بھی جائے تو وہ بچ نکلتے ہیں . پی پی ایف کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اب تک صرف 5 کیسز کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیا جاچکا ہے جن میں 2002 میں وال اسٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینئل پرل، جیو کے رپورٹر ولی خان بابر، خبرون کے رپورٹر نثار احمد سولنگی، روئل ٹی وی کے رپورٹر عبدالرزاق جاورا شامل ہیں .
. .