سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اگر انفرادی معاملات میں پڑ جائے تو اپنا مقام گھٹائے گی

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) ماہر قانون اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اگر انفرادی معاملات میں پڑ جائے تو اپنا مقام گھٹائے گی۔جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ میں یہاں کسی شخصیت کے حوالے سے نہیں کہہ رہا۔یہ موو کسی بھی انفرادی شخصیت کے حوالے سے نہیں کیا جانا چاہئیے۔انٹرویو کے دوران اعتزاز احسن سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کہہ رہے ہیں کہ وہ پٹیشن موو کریں گے۔
اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ان کا اپنا ویو ہے، وہ آزاد ہیں اور ان کے پیچھے ریکٹ ووٹرز سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کیونکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو کسی ایک شخصیت یا دو اصحاب کے معاملے میں نہیں آنا چاہئیے۔جب کوئی سیاستدان نااہل ہوتا تو وہ اسے چیلنج کرنے کا حق رکھتا ہے۔
یہ کہنا کہ چونکہ میں نے وزیراعظم بننا ہے تو اس میں پبلک انٹرسٹ آ جاتا ہے جب کہ پبلک انٹرسٹ اس طرح نہیں آیا۔

اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن موو کرنے پر کہا کہ یہ سب اتفاقا نہیں ہوا یہ پراکسی رٹ ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی جانب سے آئین کی شق 62 (ون ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کے خاتمے کیلئے درخواست تیار کرلی جو جلد ہی دائر کی جائے گی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کی جائے گی۔
درخواست میں تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کرنے کی استدعا کی جائیگی ،سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے آرٹیکل 184اور آرٹیکل 99 کی تشریح کی استدعا کی بھی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد دسمبر 2017 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو فارنگ فنڈنگ کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، جس کے بعد اس مدت کا تعین کرنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکانِ پارلیمنٹ تاحیات نااہل ہوں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔