میں عمران خان کو رات کو ڈرائونے خواب کی طرح آتا ہوں ، شہباز شریف کھل کر میدان میں آگئے

لاہور(قدرت روزنامہ)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ہر میدان سے ناکام ہو چکی ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے میں رات کو خواب میں آکر عمران خان کو ڈراتا ہے ،بلال یاسین بہادر انسان ہیں ان پر قاتلانہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے،حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ باہمی مشاورت سے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے بلال یاسین کی رہائشگاہ پر ان کی عیادت کرنے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ شہباز شریف نے بلال یاسین کی جلد صحتیابی کیلئے دعا

کرتے ہوئے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہا رکیا ۔شہباز شریف نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بلال یاسین ہماری پارٹی کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ، بلال یاسین پارٹی کا اثاثہ ہیں ۔ انہوںنے مزید کہا کہ موجودہ حکومت ہر میدان میں ناکام ہو چکی ہے ، بجلی مہنگی کر کے عوام پر مہنگائی کا بم برسایا گیا اور مزید تیاریاں جاری ہیں ۔ اس حکومت نے اپنے دور میں عوام کی بھلائی کے لئے کوئی کام نہیں کیا ۔ انہوںنے وزرا کی جانب سے ان کی گرفتاری کے بیانات بارے سوال کے جواب میں کہاکہ ایسا لگتا ہے جیسے میں رات کو خواب میں آکر عمران خان کو ڈراتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)نے اقتدا رمیں رہ کر ملک کی خدمت کی ہے اور عوام ہماری دور کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہا رکرتے ہیں ۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ 23مارچ کو تبدیلی کا مارچ ہوگا ،اپوزیشن حکومت کے ظلم کے آگے ڈٹی ہوئی ہے،،آئندہ عام انتخابات میں کوئی پی ٹی آئی کی ٹکٹ لینے والا نہیں ہوگا کیونکہ لوگ سیاسی خود کشی سے بچنے کیلئے عمران کی سیاست سے پرہیز کریں گے۔ شیخ رشید کو سنجیدہ نہ لیا کریں پہلے وہ شادی تو کر لیں، چار لوگوں کو مائنس کی بات کا فیصلہ (ن)لیگ نے کرنا ہے، فارن فنڈنگ تحقیقات میں اسٹیٹ بینک کا کلیدی کردار ہوگا ، عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کے کیس میں رعایتیں حاصل کرنے کے لئے گورنر اسٹیٹ بینک کو اس طرز کی خود مختاری دی ہے ، عمران خان سکیورٹی رسک بن گئے ہیں،حکومت کوشہباز شریف فوبیا ہوگیاہے ،لکھا ہو اہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوں گے تب ہی آئیں گے،آج تک حکومت نے قدم نہیں اٹھا یاکہ وہ عدالت جائے اور نوازشریف کو واپس لائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں سردار ایاز صادق او ردیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ 13جنوری کا دن پارلیمانی سال کا سیاہ دن تھا، وزراء تعریف کرتے ہیں کہ حکومت نے ملک کو جنت بنا دیا حالانکہ ملک نالائق وزیروں کی جنت ہے،وہ وزیر جو گیس بحران کے ذمہ دار ہیں آج وہ لیکچر دے رہے تھے کہ کون سی پالیسیاں بہترین ہیں، فیل حکومت کے فیل وزیر چوتھے سال میں گزشتہ حکومت میں کیڑے نکال رہے ہیں، وزیر کہتے ہیں مافیاز ختم کر دئیے ہیں حالانکہ شوگر ،آٹا کھاد ،فارما ،ڈالرز یا سٹاک مارکیٹ کے مافیازاس حکومت میں پیدا ہوئے ،وزیر کہتے کسان زیادہ کھاد استعمال کررہے ہیں اس لئے کھاد کی قلت ہو گئی ہے، کسان کو کھاد کی بوری 1400کے بجائے 2800روپے میں قطاروں میںلگ کر بھی نہیں مل رہی کیونکہ کھاد تو حکومت کی سرپرستی میں سمگل ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو پہلے ہی آٹے گندم اور گیس بحران کی پیشگوئی کر دی تھی، ملک میں ایک بار پھر گندم کا بحران آنے والا ہے اور وزیر کہیں گے پاکستان میں آٹے کا بحران اس لئے آیا ہے کہ لوگوں نے روٹیاں زیادہ کھانی شروع کر دی ہیں، پہلے عوام دو روٹیاں کھاتے تھے اب انہوں نے چار روٹیاں کھانا شروع کر دی ہیں۔ وزراء کہتے ہیں کہ عوام کے دن پھرے ہیں حالانکہ اصل میں عمران خان اور وزیروں کے دن پھرے ہیں جن کا انکم ٹیکس ایک لاکھ سے ایک کروڑ روپے ہوگیاہے۔احسن اقبال نے کہا کہ اس حکومت نے ملک کی کی معاشی آزاد ی خود مختاری کو نیلام کیا ہے ، یہ اصلاحات نہیں لائے بلکہ انہوں نے قومی مالیاتی خود مختاری کا سودا ہے ، قومی اسمبلی میں کی گئی قانون سازی کا مقصد پاکستان کو دست نگر ریاست بنانا ہے ۔ جو بل پاس کیا گیا ہے اس کی ہمارے خطے میں کوئی مثال نہیں ملتی ،ہندوستان ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ملائیشیاء کے سنٹرل بینکوں کے پاس اس طرح کی خود مختاری نہیں ہے ۔یہ ہمیں امریکہ ،برطانیہ اورآسٹریلیا کا سنا رہے ہیں ،اگر آپ ان ممالک کی مثالیں دے ر ے ہیں تو ان کے مقابلے کی معیشت بھی پیدا کریں ، ترقی پذیرملک کا اپنا معاملہ ہوتا ہے اور اس نے اپنے حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرنی ہوتی ہے ، جو قانون بنایا گیا ہے اس کے ذریعے گورنر اسٹیٹ بینک مکمل طور پر مخود مختار ہیں اورآئی ایم ایف کے وائسرائے ہوں گے ، وہ ریاست کی سطح پر کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں اور ان سے کوئی جوابدہی نہیںکر سکے گا۔ حکومت کا کوئی محکمہ یا کوئی بھی ان سے کوئی بات چیت کر سکے گے اور نہ انہیں ہدایات دے سکے گا ، قانون سازی کے ذریعے انہیں سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا ہے ،آپ بیشک جسے چاہیںسیاہ و سفید کا مالک بنائیں لیکن اس کے احتساب کا کوئی میکنزم تو طے کریں ،ان کی کارکردگی کو جانچنے کا کیا طریقہ ہوگا، گورنر اسٹیٹ بینک کو قلم دیدیا گیا کہ وہ اپنے اہداف طے کریں گے اور خود ہی بتائیں گے کہ انہوں نے کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے ؟۔ انہوںنے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ ایک بورڈ اسٹیٹ بینک کی نگرانی کرے گا لیکن بتایا جائے دنیا میںکس جگہ ایسا ہوتا ہے بورڈ کا چیئرمین او رچیف ایگزیکٹو ایک ہی ہو ، جو چیف ایگزیکٹو ہے وہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بھی ہے ، اس کی نگرانی میں بورد کام کرے گا وہ کیسے کرے گاکیا یہ سقم اورتضاد نہیں ہے لیکن حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ۔ قانون سازی میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک حکومت کو ایک روپیہ قرض نہیں دے سکے گا، کسی بھی ملک میں سنٹرل بینک کا یہ کردار ہوتا ہے کہ کسی ریاست کو جب کسی ایمر جنسی کی صورتحال کا سامنا ہو ، کسی آفت کا سامنا ہو تو وہ تو اپنے مرکزی بینک سے قرض لے سکتی ہے تاکہ مشکل صورتحال سے نمٹ سکے ۔ لیکن اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے قانون میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیں گے، بتایا جائے اگر اسٹیٹ بینک سے ایک روپیہ قرض نہیں لے سکتے تو کیا بیرون ممالک سے قرضوںپر بھی پابندی لگ گئی ہے ۔ اس کے ذریعے یہ کیا گیا ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے سستا قرضہ نہیں لے سکتی اور اسے اب جتنا قرضہ لینا ہے وہ کمرشل بینکوں سے لینا ہے جو مہنگا قرضہ دیںگے ، اس سے بوجھ مزید بڑھے گا ، اس قانون کے ذریعے ملک کو انٹر نیشنل اور پرائیویٹ بینکوں کا یرغمال بنا دیا گیا ہے جو کارٹلائزیشن کر سکتے ہیں اورحکومت کو ضرورت کے وقت من مانے انٹرسٹ ریٹ پر قرضے کی پیشکش کریں گے ، اس سے حکومت کے لئے سستا قرضہ لینے کا دروازہ بند ہو گیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ریاست کے ہاتھ اور پائوں باندھ کے لئے اوربین الاقوامی بینکوں کا غلام بنانے کے لئے یہ قدم اٹھایاگیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ گورنر ،ڈپٹی گورنر بینک کے لئے یہ شرط ہونی چاہیے کہ وہ دہری شہریت کے حامل نہیں ہوں گے کیونکہ وہ کسی ملک کی قومی مختاری اور مالیاتی خود مختاری کے نگران ہوتے ہیں ،حکومت نے اس میں ڈپٹی گورنر کیلئے تو یہ شرط رکھ دی ہے لیکن گورنر کے لئے اسے ختم کر دیا گیا ،اسی طرح نان ایگزیکٹو ممبر بھی دوہری شہرتی رکھ سکتے ہیں اور وہ نگران بن کر بیٹھ سکتے ہیں۔ گورنر کے عہدے کی مدت تین سال تھی جسے حکومت نے بڑھا کر پانچ سال کر دیا ہے اور پانچ سال کی توسیع بھی ہو سکتی ہے ، اب گورنر اسٹیٹ بینک دس سال کیلئے براجمان رہ سکتا ہے ۔ہم نے تجویز دی تھی کہ اگر گورنر کو دو ٹرمز دینی ہے انہیں تین تین سال کی دو ٹرمز دیں ۔ دوسری جانب حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں چیئرمین کی مدت چار سال سے کم کر کے دو سال کر دی،آپ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی مدت دو سال کر رہے ہیں اورگورنر اسٹیٹ بینک کے لئے تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر رہے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ کے ذریعے حکومت گورنر اسٹیٹ بنک کے آگے لیٹ گئی ہے اور اس کے پیچھے بھی ایک خاص مقصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کی ٹرانزیکشن اسٹیٹ بینک کے ذریعے آئی ہوئی ہیں ، فارن فنڈنگ کیس میں ابھی تحقیقات ہونی ہے اورمنی ٹریل دینے کے لئے اسٹیٹ بینک کا کلیدی کردار ہے ،عمران نیازی گورنر اسٹیٹ بینک کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ فارن فنڈنگ کی شفاف تحقیقات کو سبوتاژ کر سکیں اوراس کو روک سکیں ،اسی لئے ہم نے کہا تھاکہ عمران خان سکیورٹی رسک بن گئے ہیں،یہ ممنوعہ فنڈنگ کی تحقیقات کو روکنے کیلئے پاکستان کے مفادات سے کھیلیں گے ،انہوںنے گورنر اسٹیٹ بینک کو اس لئے کھلی چھٹی دیدی اور آزادی دی ہے کہ وہ کل انہیںکل سرٹیفکیٹ لینا ہے ۔انہوںنے کہا کہ یہ بھی کیاگیاہے کہ گورنر ، ڈپٹی گورنر اور بورڈ ممبر خود ہی اپنی تنخواہوں کا فیصلہ کریں گے ،بینکنگ صنعت میں جو اعلیٰ ترین تنخواہیں ان کی ان سے زیادہ مراعات ہوں گے ، چلیں اپ منہ مانگی تنخواہیں لے لیں لیکن اس کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ وہ تنخواہ بینک کے منافع یا آمدن سے جڑی نہیں ہو گی ،اس تنخواہ کا کارکردگی کا کوئی تعلق نہیں ہے ،آپ کسی کو بھی من مانی تنخواہیں دیں لیکن آپ کی تنخواہ کاکارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا یہ عجیب با ہے ۔ہم نے مفادات کا ٹکرائو کو سامنے رکھتے ہوئے تجویز دی تھی کہ گورنر او رڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جو عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات میں شامل یا نجی بینکوں جنہیں ریگولیٹ کرتے ہیںنوکری چھوڑنے کے دو سال تک ایسے کسی ادارے کی ملازمت نہیں کر سکیں گے ، ملک میں نجی بینکوں کے لئے تو اس شرط کو رکھا گیا ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں جن سے وہ مذاکرات میں شامل رہے ہیں وہاں ملازمت کی پابندی کی شرط کونہیں رکھا گیا جس سے گورنر اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف میں نوکری پکی رکھی ہے او رجب وہ یہاں سے چھوڑیں گے تو بریف کیس اٹھائیں گے اور آئی ایم ایف میں جا کر کرسی پر بیٹھ جائیں گے،بتایا جائے اس طرح کا قانون کونسا خود مختار ملک بناتا ہے ۔ آڈیٹر جنرل کا آڈٹ رکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی ٹوٹھ لیس رکھا گیا ہے ، اسٹیٹ بینک شہریوں اور ریاست کی کوئی بھی خفیہ معلومات بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے،پارلیمنٹ اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر کوئی قانون نہیں کر سکے گی ، اس اقدام کے ذریعے پارلیمنٹ کی خود مختاری پر بھی قدغن لگا دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ جو ہاٹ منی کے اندر سکینڈل ہے ،سوا تیرہ فیصد کے ذریعے جومہنگے قرضے لئے ان کے اقدام کی تحقیق یا تفتیش نہیں ہو سکتی ۔ انہوںنے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے ذمہ داران سیاہ کریں سفید کریں وہ جائز ہے لیکن اگر سیاستدان اور حکومت کے لوگ ہیں وہ نیب کی پیشیاں بھگتیں گے ،اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر اربوں کا ٹیکہ لگا دیں انہیں کوئی سوال نہیں پوچھ سکے گا، انہوںنے پاکستان کے مالیاتی ڈھانچے کو گہری چوٹ لگائی ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے قائمہ کمیٹی میںکہا تھاکہ اس پرشق وا ربحث ہونی چاہیے لیکن وہاں سے بلڈوز کر کے نکالا گیا ، جب قومی اسمبلی میں آیا وہاں رولز کو معطل کر کے پارلیمنٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، یہ ملک کی خود مختاری کا معاملہ تھا لیکن کسی ایک ممبر کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔یہ پاکستان کی مالیاتی خود مختاری کا سودا ہونے جارہا ہے اس لئے میں تمام سینیٹرز سے اپیل کروں گا وہ اپنا کردار ادا کریں ،امید کرتا ہوں سینیٹ آف پاکستان اس مالیاتی قانون پر بریک لگائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس کوئی توپ نہیں ہوتی جسے وہ چلا ئے ، وہ اپنی دلیل اوراحتجاج کے ذریعے حکومت کی ناکامیوں کو سامنے لاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسکہ ،خانیوال ،لاہور ،وزیر آباد اورخیبر پختوانخواہ میں (ن) نے کاکامیابی حاصل کی ہے ، خیبر پختوانخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بدترین شکست ہوئی ہے ۔ احسن اقبال نے کہا کہ 23مارچ کو تبدیلی کا مارچ ہوگا ،اپوزیشن حکومت کے ظلم کے آگے ڈٹی ہوئی ہے ،کیا اب پھانسی پر چڑھ جائیں،(ن)لیگ کی سیاسی حکمت عملی کامیاب ہے ، ہم نے جو عوامی دبائو پیدا کیا اس کے نتیجے میں اب ایوانوں سے ان کے اپنے لوگوںکی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں،پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ میں اضافہ ہوگا کیونکہ لوگ سیاسی خود کشی سے بچنے کیلئے عمران کی سیاست سے پرہیز کریں گے ۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کوشہباز شریف فوبیا ہوگیاہے ،لکھا ہو اہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوں گے تب ہی آئیں گے،آج تک حکومت نے قدم نہیں اٹھا یاکہ وہ عدالت جائے اور نوازشریف کو واپس لائے ،لوگ حکمرانوں کا گریبان نہ پکڑیں اس لئے نوازشریف کی صحت پر سیاست کررہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اس وقت عوام ہر سیاسی جماعت کے کردار کو عوام دیکھ رہے ہیں جو عوام کی تباہی میں عمران خان کو آکسیجن فراہم کرے گی عوام اس کا انجام وہی کریں گے جو آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا ہوگا، آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا ،لوگ ان کی ٹکٹ کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے شواہد نیشنل کرائم ایجنسی میں بھی دئیے گئے جو اس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دئیے، الف لیلیٰ کی کہانیاں ملک میں چل سکتی ہیں بین الاقوامی اداروں نے ایسے کیسز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا، شہبازشریف کے خلاف جو کیسز ہیں وہ سب جھوٹے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ اسد عمر نو مہینے میں کچھ ڈلیور نہیں کر سکے تو انہیں نکال دیا گیا، یہ سمجھ رہے تھے کہ اسد عمر بڑے ہوکر کچھ سیکھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر کا کام پارٹی بننا نہیں ہوتا وہ غیر جانبدار ہوتاہے، سپیکر کے سامنے اگر ووٹ چیلنج ہو تو بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ،وہ فون کالز کی وجہ سے ایوان میں آئے تھے اس لئے قانون سازی کو روکا نہیں گیا ،عوام نے پارلیمنٹ کا بد ترین دن دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کو سنجیدہ نہ لیا کریں پہلے وہ شادی تو کر لیں چار لوگوں کو مائنس کی بات کا فیصلہ (ن)لیگ نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز خٹک کو فون آ گیا تھا اس لئے انہوں نے اپنا بیان تبدیل کیا، ہم نے اسٹیٹ بینک قانون پر احتجاج کیا ،ہم نے پارلیمنٹ پر حملہ کرنا ہے اور نہ ہی وہاں شلواریں ٹانگنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فروری کے پہلے ہفتہ لندن جا رہا ہوں ،نوازشریف ضرور آئیں گے ،پی ٹی آئی والوں کی نیندیں ضرور خراب ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کی چوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ چھپ نہیں سکتیں ،انہیں نوازشریف کے آنے اور پی ٹی آئی والوں کے احتساب کی فکر ہے۔