تحریک انصاف کی حکومت کو ایک اور شدید دھچکا ،عمران خان کے قریبی ساتھی نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے وزیراعظم عمران خان کو آئندہ ماہ عہدے سے مستعفی ہونے کے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد جاوید کو وزیراعظم عمران خان نے فروری 2020ء میں عہدے پر مقرر کیا تھا لیکن وہ دو سال عہدے پر کام کرنے کے بعد اب مزید کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ انہیں فروری 2022ء میں عہدے سے سبکدوش کر دیا جائے۔ تاہم، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ خالد جاوید

عہدے پر کام کرتے رہیں کیونکہ وہ اچھی ساکھ کے حامل ہیں بالغ النظر شخص ہیں اور ساتھ ہی موجودہ حکومت کے ماہرین قانون کی ٹیم میں دانشمند شخص سمجھے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد جاوید گھریلو معاملات کی وجہ سے ملازمت چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے قانونی مشورے دے کر اور قانونی معاملات پر قانون اور اخلاقیات کی بنیاد پر سخت موقف اختیار کرکے عزت کمائی ہے۔ حکومت میں دوسروں کے برعکس، انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے معاملے پر وہ اپنی حکومت کے ارکان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بے عزتی کرنے اور اس کے ساتھ تنازع میں آنے سے روکیں۔ جس وقت وزیروں کی اکثریت اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا اصرار تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے انتخابات کرانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا، لیکن اٹارنی جنرل کی رائے تھی کہ حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرے گا۔ دیگر معاملات میں بھی، خالد جاوید اکثر آزاد رائے پیش کرتے تھے جو قانون اور اخلاقیات پر مبنی ہوتا تھا۔ خالد جاوید خان کا تقرر فوری نافذ العمل اور وفاقی وزیر کے مساوی عہدے پر کیا گیا تھا۔ انہوں نے باضابطہ طور پر حکومت سے رابطہ کرکے اپنے عہدے کو وزارت قانون کے کنٹرول سے آزاد کرکے خود مختار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ اٹارنی جنرل نے خود کو حکومت میں شامل ایسے افراد سے بھی فاصلے پر رکھا ہے جو عدلیہ کیخلاف باتیں کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے ’’مفادات کے تضاد‘‘ کو وجہ بیان کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس میں حکومت کی نمائندگی سے انکار کر دیا تھا۔ اٹارنی جنرل نیب کے اختیارات اور کردار سے مطمئن نہیں تھے۔ حالیہ ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے نیب آرڈیننس میں متعارف کرائی گئیں حالیہ ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کچھ اصل شقوں کی مخالفت کی تھی جن کے تحت نیب حکام کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک شخص کو ریفرنس دائر کرنے سے قبل ہی گرفتار کر سکتے ہیں۔ خالد جاوید خان نے انکشاف کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اُن کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا کہ نیب کے ترمیمی قانون میں ایک شق شامل کرکے نیب حکام کو کسی بھی مشکوک شخص کو گرفتار کرنے کا اختیار نہ دیا جائے تاوقتیکہ عدالت اس کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی تحقیقات اور پراسیکوشن کے عمل میں خامیاں ہیں اور کچھ کیسز کا نتیجہ بہت پہلے سامنے آ جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں پر کرپشن کا الزام عائد کرکے اور اس کے بعد ایک سال بعد یہ کہنا کہ کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا؛ کسی بھی شخص کی ساکھ کو تباہ کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مشکوک شخص کو گرفتار کرنے کا فیصلہ احتساب عدالت کا ہونا چاہئے اور وہ بھی اُس وقت جب پہلے ہی ریفرنس دائر کیا جا چکا ہو۔ انہوں نے اصرار کیا تھا کہ ابتدائی مرحلے پر کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نیب کچھ کیسز میں نا انصافی کرتا ہے اور ایسے معاملات میں ضروری ہے کہ متاثرین کو ہرجانہ ادا کیا جائے۔