فیملی کی جانب سے ملک فیصل اکرم کی حرکتوں کی مذمت، سوالات بھی اٹھا دئیے

لندن(قدرت روزنامہ) امریکا میں یہودی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنانے والے بلیک برن کے رہائشی ملک فیصل اکرم کے بڑے بھائی نے اپنے بھائی کی حرکتوں کی مذمت کی ہے، تاہم انہوں نے اس بارے میں جواب طلب کیا ہے کہ اسےکس طرح سے امریکہ جانے کی اجازت دی گئی۔
جیو اور دی نیوز کو ایک خصوصی بیان دیتے ہوئے ملک گلبر اکرم نے وضاحت کی کہ انہوں نے اپنے بھائی کو لوگوں کو یرغمال بنانے سے روکنے اور سانحہ کو ختم کرنے کیلئے قائل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ فیصل اکرم نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز،44سالہ ملک فیصل اکرم کو کنگریگیشن بیت اسرائیل میں11گھنٹے کے تعطل کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔تمام یرغمالیوں کو بغیر کسی جسمانی نقصان کے بچا لیا گیا۔ ملک گلبر اکرم کو اس اندوہناک واقعے کا علم اس وقت ہوا جب انہیں اپنے نوعمر بھتیجے کا فون آیا کہ ان کے والد امریکہ میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ملوث ہیں۔
ملک گلبر اکرم نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی اور چند ہی منٹوں بعد انہوں نے اپنی گاڑی اور پولیس سٹیشن سےاپنے بھائی سے مذاکرات کئے، اوراس سے کارروائی روک دینے کی دلی التجا کی ۔ وائٹ ہاؤس میں اس آپریشن کو براہ راست دیکھا گیا۔ملک گلبر اکرم نے اپنے بھائی سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کو یرغمال بنانے کا خیال ختم کریں، اپنے خاندان کا سوچیں اور گھر آئیں لیکن ان کی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
جیو نیوز کو خاندان کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ملک گلبر اکرم نے تقریباً آدھے گھنٹے تک اپنے بھائی سے بات کی اور انہیں مسلسل اپنے خاندان کی یاد دلاتے رہے۔ ملک گلبر اکرم نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ چند دنوں کے واقعات سے ہمیں بہت دکھ ہوا ہے۔ہم اپنے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ متاثرین پرکیا گزر رہی ہے۔وہاں لوگ اپنی جان کے لیے خوفزدہ تھے۔
ہمیں ان لوگوں کے لئے بہت تکلیف محسوس ہوئی جو اس کرب سے گزرے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا کچھ نہ ہو۔ ایک خاندان کے طور پر یہ تکلیف دہ اور تباہ کن رہا ہے۔ ملک گلبر اکرم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب انہیں اپنے بھتیجے کا فون موصول ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ خوفناک واقعہ پیش آیا ہے۔
جب گلبر نے فیصل سے پوچھا کہ وہ امریکہ میں کیا کر رہے ہیں تو اس نے جواب دیا ’’ میں امریکہ میں ہوں اور میں ایک عبادت گاہ میں ہوں، میرے ساتھ چار خوبصورت یہودی لوگ ہیں ‘‘۔
اس وقت گلبر نے اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات چیت ریکارڈ کرنا شروع کی کہ یہ اپنے بھائی سے آخری گفتگو ہو سکتی ہے۔فون کال کے دوران، فیصل نے گلبر کو بتایا کہ اس نے پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مسلسل قید کو اجاگر کرنے کے لیے لوگوں کو یرغمال بنایا ہے۔ فیصل نے گلبر کو بتایا کہ ’’میں چاہتا تھا کہ حکام عافیہ صدیقی کو قید سے رہا کریں ۔
گفتگو میں گلبر کو اپنے بھائی سے بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے بارے میں سوچے۔گلبر نے کہا کہ ’’میں نے اسے قائل کرنے اوراسے اپنے بچوں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی۔ میں نے اس سے کہا ʼاسے ختم کریں مگر اس کا ذہن بنا ہوا تھا۔اس نے کسی موقع پر یہ نہیں کہا کہ وہ ان لوگوں کو نقصان پہنچائے گا۔ میں جانتا تھا کہ اس کے پاس کوئی بم نہیں ہے ،اس کے پاس ہینڈ گن تھی۔میرے اس وقت آنسو بہہ رہے تھے۔ اس کے بعد اس نے کہا ’’ ʼاگر میں نے آپ کے ساتھ کبھی کوئی برا کیا ہے تو براہ کرم مجھے معاف کر دیں۔‘‘
مجھے یقین ہے کہ انہیں اسے مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے گولیوں کی آوازیں سنی جنہوں نے آخر کار اسے مار ڈالا۔مجھے غصہ محسوس ہوتا ہے۔ انہیں اسے مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک بار یرغمالیوں کے باہر جانے کے بعد اندر جانے اور اسے مارنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔گلبر نے کہا کہ فیصل اکرم نے اس وقت تک عافیہ صدیقی کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھائیں گے۔
گلبر اکرم نے سوال کیا کہ فیصل اکرم کو بغیر کسی سخت جانچ کے جہاز پر جانے کی اجازت کیوں دی گئی جب کہ ان کے پاس کووِیڈ ویکسینیشن کے ثبوت نہیں تھے اور انہیں پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مسائل کا سامنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پہنچنے کے فوراً بعد فیصل اکرم بغیر کسی مسئلے کے ایک سم کارڈ اور بندوق خریدنے میں کامیاب ہو گیا اور دوسری ریاست میں عبادت گاہ میں یرغمال بنانے سے پہلے وہ دو ہفتے تک ایک بے گھر لوگوں کی عارضی رہائش گاہ میں رہا۔
گلبر اکرم نے کہا کہ “میرا بھائی منصوبہ ساز نہیں تھا ۔انہوں نے سوال کیا کہ بلیک برن کا رہائشی ایک لڑکا ہوائی جہاز میں سوار ہوتا ہے اور اس سے پوچھ گچھ نہیں ہوتی ہے۔ اس نے ویکسی نیشن بھی نہیں کرائی تو اسے ویزا کیسے ملا۔اگر میرے بھائی کو کبھی دماغی صحت کے مسائل نہ ہوتے تو وہ اس میں کبھی ملوث نہ ہوتا۔گلبر نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا جس نے اس کے خاندان اور برادریوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تحقیقات کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور جتنا ہو سکے مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے کوئی چیز چھپی نہ رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائی کو واپس لانا چاہتے ہیں تاکہ ہم تدفین کر سکیں۔ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ اگر اسے ملک میں جانے کی اجازت نہ دی جاتی تو اس کو روکا جا سکتا تھا۔