مری، مقامی افراد کی زیادتیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، انکوائری رپورٹ

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) سانحہ مری کے بعد مقامی افراد کیخلاف استحصال کے وسیع پیمانے پر شروع کیے جانے والے پروپیگنڈے کو انکوائری کمیٹی نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے والا واقعہ قرار دیا ہے۔کمیٹی نے اپنے مشاہدات میں لکھا ہے کہ کمیٹی کو معلوم ہوا ہے کہ مقامی افراد اور ہوٹلز نے بے غرض انداز سے مدد کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ بے یار و مددگار سیاحوں نے خوراک اور بس و ٹیکسی کے کرایوں میں اضافے کی شکایت کی تھی۔ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے استحصال کی شکایات بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔ انکوائری رپورٹ بدھ کو وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی تھی۔ اس میں انتظامیہ کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈی سی راولپنڈی اور اسسٹنٹ کمشنر مری نے کو آرڈینیشن کے حوالے سے ہوٹل ایسوسی ایشن کے ساتھ اجلاس کیا تھا تاکہ ایمرجنسی بنیادوں پر قیام کی سہولت دی جا سکے۔ہوٹل ایسوسی ایشن کے نائب صدر نے بھی تصدیق کی کہ مری کی مقامی انتظامیہ کے ساتھ اجلاس ہوا تھا جس میں سیاحوں کو سہولت فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم، جیسے ہی برف باری شروع ہوئی تو اس بات کے شواہد محدود ہو جاتے ہیں کہ انتظامیہ نے ہوٹلز کے ساتھ رابطہ کرکے سیاحوں کی حفاظت کیلئے اقدامات کیے۔
مزید برآں، کمیٹی کو وہ ایس او پیز نہیں ملے جو یہ واضح کرتے کہ ہوٹلز سے سروس اور سپورٹ کیسے حاصل کرنا تھی اور مدد کا پیمانہ کیا ہوگا جیسا کہ مفت کمروں کی تعداد کیا ہوگی۔ کمیٹی کو یہ پتہ چلا کہ مقامی افراد اور ہوٹلز نے بے غرض انداز سے مدد کی۔لیکن ساتھ ہی کچھ بے یار و مددگار سیاحوں نے کھانے پینے کی چیزوں کی زیادہ قیمتیں وصول کیے جانے اور ٹیکسی اور بسوں کے زیادہ کرائے وصول کیے جانے کی شکایات کی ہیں۔ جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے استحصال کرنے کی باتیں بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کا انتباہ تھا کہ 6 سے 9 جنوری تک شدید برف باری ہوگی.
ٹریفک کے حوالے سے ادارے کی جانب سے کی گئی پیشگوئی واضح تھی جبکہ این ڈی ایم اے کے پانچ جنوری کے خط میں واضح ہدایات درج تھیں کہ ٹریفک کو محفوظ مقامات سے گزارا جائے تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر انتظار سے بچایا جا سکے۔ اس میں لکھا تھا کہ ڈی جی پی ڈی ایم اے کو پانچ جنوری کو واضح انداز سے یہ انتباہ ارسال کر دیے گئے تھے۔اتفاق کی بات ہے کہ ڈی جی پی ڈی ایم اے کا عہدہ خالی تھا کیونکہ سابق ڈی جی نے تین جنوری 2022 کو عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم اے کی جانب سے پی ڈی ایم اے پنجاب انفو ڈیسک کے واٹس ایپ گروپ پر یہ انتباہ شیئر کیا گیا اور اس گروپ میں کمشنر راولپنڈی اور ڈی سی راولپنڈی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے کی وارننگ پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم تک پہنچی لیکن ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نے 18 جنوری تک واٹس ایپ پیغام دیکھا ہی نہیں تھا۔ کمیٹی نے ڈی سی راولپنڈی، راولپنڈی پولیس، راولپنڈی ٹریفک پولیس، پی ڈی ایم اے اور نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے ٹوئٹر اور فیس بک پیجز اور ویب سائیٹس کا جائزہ لیا۔پانچ جنوری کو جاری کردہ موسم کی ایڈوائزری کے حوالے سے ان اداروں نے اپنے پیجز اور ویب سائیٹس پر سات جنوری تک شہریوں کو کوئی انتباہ جاری نہیں کیا گیا تھا کہ وہ مری نہ جائیں۔
پی ڈی ایم اے نے بھی اپنی ویب سائیٹ کا ٹوئیٹر اکائونٹ پر پانچ جنوری کی ٹریول ایڈوائزی جاری نہیں کی۔ پولیس کی کارکردگی غیر اطمینان بخش تھی اور خصوصی طور پر پولیس ٹریفک کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہی اور سیاحوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی روک تھام یا پھر بڑی تعداد میں مری میں گاڑیوں کے داخلے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔فیصلہ کرنے اور عملدرآمد میں سستی کی وجہ سے ٹریفک مینجمنٹ اور مری سے سیاحوں کے محفوظ انخلاء میں ناقابل تلافی تاخیر ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو ڈپارٹمنٹ میں دو افسران (ایکسین اور ایس ڈی او) ہیں جو مری میں برف باری کے بعد برف کو ہٹانے کے ذمہ دار ہیں۔
ان کے علاوہ، ایکسین ہائی ویز سڑکوں کو رواں دواں رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ اُن کے کنٹیجنسی پلان میں آپریٹرز، نمک اور ڈیزل کی دستیابی، دیگر محکموں کے ساتھ رابطہ کاری کے میکنزم اور مشینری پہنچانے کا کوئی ذکر نہیں۔اگرچہ سی اینڈ ڈبلیو افسران دعویٰ کرتے ہیں کہ مناسب انتظامات کیے تھے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ کچھ آپریٹرز نے مختلف اداروں سے فیول (پٹرول ڈیزل) مانگا جن میں پرل کونٹیننٹل ہوٹل شامل ہیں۔ خراب منصوبہ بندی اور فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے مشینری اور ساز و سامان ٹریفک میں پھنس گیا جس سے برف ہٹانے کا کام غیر موثر ہوگیا اور حالات خراب ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق، پنجاب ایمرجنسی سروسز ڈپارٹمنٹ (ریسکیو 1122) کی مری میں موجودگی بہت مضبوط ہے، ڈپارٹمنٹ نے کنٹیجنسی پلان بنایا تھا اور اسے 22نومبر 2021 کو جاری کر دیا تھا۔ تاہم، اسٹاف کیخلاف ایک سنگین شکایات یہ تھی کہ انہوں نے سڑک پر مزید آ گے کلدانہ چوراہے سے باریاں جانے والی سڑک پر برف ہٹانے سے انکار کر دیا تاکہ وہاں پھنسے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ریسکیو 1122 کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی تھی کہ ریسکیو کرین لائی جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا حالانکہ اسٹیشن کمانڈر اور اے سی مری کے ساتھ ہونے والے اجلاس کے میٹنگ منٹس میں اس بات کا ذکر موجود ہے۔انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برف باری کے دوران تمام تر انتظامیہ، ریسکیو اور سپورٹ مشینری سسٹم نے پھنسے ہوئے سیاحوں کو بچانے کیلئے محدود کوششیں کیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا گیا کہ مدد صرف چوراہوں کے قریب یا پھر مرکزی شاہراہوں پر ان مقامات پر فراہم کی گئی جہاں دکانیں اور ہوٹلز قریب تھے۔
گرے ہوئے درختوں یا بجلی کے کھمبوں کو ہٹانے کیلئے محکمہ جنگلات اور آئیسکو والے ایک یا دو مقامات کے سوا باقی وقت برف باری کے دوران غیر حاضر رہے۔ اے سی اور اے ایس پی سے توقع تھی کہ وہ کثیر الجہتی سوچ کے ساتھ اقدامات کریں گے لیکن یہ لوگ گاڑیوں کو دھکا دے کر آگے بڑھاتے دیکھے گئے حالانکہ یہ کام وارڈنز کا تھا۔رپورٹ کے مطابق، مندرجہ ذیل غفلت دیکھی گئی: ۱) خطرے کا جائزہ لینے میں ناکامی اور درست ذرائع سے اور درست حلقوں تک انتباہ کی معلومات ارسال کرنے کا طریقہ غیر موزوں ہونا۔۲) ڈویژنل، ضلعی اور تحصیل سمیت تمام سطحوں پر قیادت کا فقدان جس کی جھلک خراب منصوبہ بندی اور ٹوٹی پھوٹی رسک اسسمنٹ اور غیر معیاری انداز سے عملدرآمد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
۳) مری میں ضلعی سطح پر باقاعدہ ایسا کنٹرول روم کے قیام میں ناکامی جس میں تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں کے نمائندے موجود ہوتے۔ ۴) بعد میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جیسا کہ مشینری لگا کر برف ہٹائی جائے اور پہلے کے اقدامات ہوئے یا نہیں کی تصدیق کی جا سکے۔