رانا شمیم اور سولیسٹر نے نوازشریف کے دفتر میں بیان حلفی ریکارڈ کرایا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وفاقی وزیر فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف فیملی نے رانا شمیم کیس میں اس انکشاف کی تردید نہیں کی کہ یہ حلفیہ بیان نواز شریف کے دفتر میں ان کی ہدایات کے مطابق تیار ہوا۔رانا شمیم اور سولیسٹر نے نوازشریف کے دفتر میں یہ بیان حلفی ریکارڈ کرایا،تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ڈرامہ عدالت پر اثرانداز ہونے کیلئے رچایا گیا جمعہ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا تھا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کے بارے میں چارلس گوتھری نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ بیان حلفی نواز شریف کے گھر پر دستخط ہوا، یہ بہت اہم معاملہ ہے، شریف فیملی کو اس پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد کردی ہے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی جریدے میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی. سماعت کے آغاز میں جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین سے کہا کہ عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کا حکم پہلے دیا تھا اس لیے پہلے چارج فریم کریں گے پھر آپ کو سنیں گے عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے رانا شمیم کو روسٹرم پر طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے دو نئی درخواستیں دائر کردی ہیں. عدالت نے کہا کہ پہلے فردجرم عائد ہوگی پھر درخواستیں دیکھیں گے عدالت حکم دے چکی تھی آج فردجرم عائد ہوگی رانا شمیم نے عدالت نے وکیل لطیف آفریدی کے پہنچنے تک کی مہلت مانگی تو عدالت نے سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کردیا. بعدازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے، اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے، عدالت کا احترام کرتے ہوئے کیس کی کارروائی آگے چلانے دیں. چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آکر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے. انہوں نے کہا کہ جولائی 2018 سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، جب اسٹوری شائع کی گئی تو ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے مقرر تھا، اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے.