پہلے مرہم پٹی کا سامان لاؤ اس کے بعد علاج شروع ہوگا، حادثے کا زخمی بھی سرکاری ہسپتال کی بے حسی کا نشانہ، کون روکے گا یہ سب
کراچی (قدرت روزنامہ)دنیا بھر میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرے اور اس کے لیے سرکاری ہسپتال قائم کیے جاتے ہیں جہاں پر ان کو علاج کی بہترین ترین سہولیات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے- مگر ہمارے ملک میں سرکاری ہسپتال میں علاج کے لیے جانے سے قبل انسان سو بار سوچتا ہے مگر کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں جب کہ انسان کے پاس ان کے پاس جانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے- ایسا ہی کچھ گزشتہ دن ہوا جس واقعہ کو ایک عام مشاہدے کے طور پر زد قلم کرنے کی جسارت اس امید کے ساتھ کر رہے ہیں کہ شائد اس تحریر کے ذریعے یہ شکایت عام عوام سے نکل کر حکام تک پہنچ سکے اور وہ اس کے لیۓ کچھ اقدامات کر سکیں-
کراچی کے رہنے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صبح اور دفاتر کی چھٹی کے وقت سڑکوں پر ٹریفک کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کا بھی اژدھام ہوتا ہے . ایسے وقت میں گاڑی یا بائک چلانا موت کے کنوئيں میں گاڑی چلانے کی طرح ہی ہوتا ہے جہاں اپنی جان بچانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرنی پڑتی ہے کہ سامنے آنے والے کو بھی بچانا ہے- ایسا ہی ایک حادثہ ہمارے علم میں آیا یہ حادثہ لکی ون شاپنگ مال کے سامنے پیش آیا جس میں دفتر سے چھٹی کے بعد بائک پر سوار ایک نوجوان کے سامنے پیدل چلنے والے اچانک آگئے جن کو بچانے کی کوشش میں نہ صرف وہ خود گرے بلکہ ان کی بائک کی زد میں آکر ایک اور فرد بھی زخمی ہو گیا-
جیسا کہ کراچی والوں کے لیے ان کی نرم دلی اور دوسروں کی مدد کا جذبہ مشہور ہے تو اسی جذبے کے تحت اردگرد موجود افراد نے نہ صرف فوری طور پر ایمبولنس کو فون کر کے منگوا لیا بلکہ زخمیوں کے گھر والوں کو بھی اس حادثے کی اطلاع دے دی گئی- قریب ترین سرکاری ہسپتال ناظم آباد میں واقع تھا اس وجہ سے ایمبولنس والوں نے زخمیوں کو فوری طور پر وہاں پہنچایا بائک والے کے سر پر گہرے زخم آئے تھے جس میں سے تیزی سے خون جاری تھا جب کہ دوسرے زخمی کو بھی کافی چوٹیں آئی تھیں- یہاں سے سرکاری اسپتال کے عملے کی بے حسی اور ظلم کی انتہا کی داستان کا آغاز ہوتا ہے اس سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ سرکاری ہسپتال کو سالانہ کروڑوں روپے کا فنڈ حکومت کی جانب سے ملتا ہے اور جس کا مقصد عوام کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے- اس کے علاوہ دنیا بھر کے فانون کے مطابق ایمرجنسی میں لائے گئے مریضوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کے پابند ہیں- مگر اس حادثے کے زخمی مریضوں اور ان جیسے کئی دوسرے مریضوں کے ساتھ اسپتال کے عملے کے سلوک اور ان کی بے حسی کو دیکھ کر احساس ہوا کہ اس ملک میں جنگل کا قانون قائم ہے .
تفصیلات کے مطابق عملے نے ایمرجنسی میں لائے گئے ان مریضوں کے علاج سے اس وقت تک انکار کر دیا جب تک کہ ان کے لواحقین ہسپتال تک نہ پہنچے . سر پر لگی چوٹ اور اس سے بہنے والا خون بھی اس عملے کے احساسات کو نرم کرنے کا باعث نہ بن سکا- لواحقین کی آدھے گھنٹے تک آمد کے بعد عملے نے ان کو دواؤں کی ایک لمبی لسٹ پکڑوا دی کہ پہلے یہ تمام چیزيں فراہم کی جائيں اس کے بعد علاج شروع کروایا جائے گا . اس لسٹ میں بہت ساری ایسی اشیا بھی شامل تھیں جن کا علاج سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا مگر ایمبولنس کے عملے کے مطابق یہ اشیا بعد میں عملہ واپس میڈيکل اسٹور والوں کو فروخت کر کے اس کے پیسے اپنی جیب میں ڈال دیتا ہے- ادویات کی فراہمی کے بعد سر پر لگنے والی چوٹ کے لیے ڈاکٹر حضرات نے ایکس رے کروانے کا کہا جس کے پیسے علیحدہ سے وصول کیے گئے اور اس کے بعد ایکس رے کی تصویر کو موبائل میں یہ کہہ کر دی گئی کہ ہمارے پاس اس کی فلم نہیں ہے . یاد رہے کہ ایکس رے کی تصویر جو موبائل میں لی جائے کسی بھی ماہر ڈاکٹر کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی ہے اور اس کی بنا پر علاج نہیں کیا جا سکتا ہے-
دوسرے زخمی کے لواحقین کی غیر موجودگی کے باعث وہ اسی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا جس پر بائیک والے زخمی کے لواحقین نے انسانی ہمدردی کے تحت اس کے علاج کی بھی درخواست کی جس کے جواب میں اس کے لیے بھی ادویات کی لسٹ تھما دی گئی جب یہ بتایا گیا کہ پہلے لائی گئيں ادویات دونوں مریضوں کی مرہم پٹی کے لیے کافی ہے تو ناک بھوں چڑھاتے ہوئے مجبورا اس کی بھی مرہم پٹی کر دی گئی- اس حادثے سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان زخمیوں کی تو جان بچ گئی لیکن اگر یہ مریض خدا نخواستہ زيادہ خظرناک صورتحال کا شکار ہوتے تو عملے کی یہ بے حسی اور لالچ تو ان کی جان کو بھی خطرے میں ڈال سکتی تھی- سوال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال کے عملے کی اس من مانی کو چیک کرنے والا کیا کوئی موجود نہیں ہے؟ کیا انسانی جان کی قیمت ان لوگوں کی نظر میں ان ادویات سے زيادہ ہے جن کو بیچ کر یہ اپنی چیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں- اگر ان سوالوں کے جوابات آپ میں سے کسی کے پاس ہوں تو ہمیں ضرور بتائيے گا یا پھر اس آواز کو اتنا شئير کریں کہ آواز ارباب اقتدار کے کانوں تک بھی جا پہنچے-
. .