پاکستان پہنچ کر میرے منہ سے ایک لفظ نکلے گا اور۔۔۔ جنرل ضیاالحق کا وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ٹال دی
(قدرت روزنامہ)’جنرل صاحب میچ دیکھنے کے لیے جے پور جانا چاہتے ہیں، تم اُن کے
ساتھ جاؤ گے؟ راجیو گاندھی نے یہ بات مجھ سے کہی پھر گرمجوشی کے بغیر اور غیر دوستانہ انداز میں اپنا ہاتھ جنرل ضیا کی طرف بڑھا دیا۔‘ ’یہ دیکھ کر کہ اس قدر سرد مہری کے باوجود اُن (جنرل ضیا) کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، میں نے سوچا کہ یہ شخص کتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ عین اسی لمحے جب میرے ذہن میں یہ خیالات ہلچل مچا رہے تھے کہ جنرل ضیا نے سرگوشی میں چند جملے کہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ جملے سُنتے ہی راجیو گاندھی کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔‘ یہ واقعہ بہرا مینن نے بیان کیا ہے جو سنہ 1987 میں انڈین وزیر اعظم کے خصوصی مشیر تھے۔ راجیو گاندھی سے سرگوشی کے انداز میں کان میں کیا بات کہی گئی تھی اور وہ کیوں پریشانی محسوس کرنے لگے تھے؟ یہ کہانی کسی قدر طویل ہے اور اس کا پس منظر اس سے بھی زیادہ۔ براس ٹیک مشقیں یہ 18 نومبر 1986 کی بات ہے جب انڈین فوج نے ‘براس ٹیک’ کے نام سے فوجی مشقیں شروع کیں اور اس مقصد کے لیے راجستھان میں پاکستانی سرحد کے قریب جمع ہو گئیں۔ یہ مشقیں کتنی بڑی تھیں اور اس میں کتنی فوج حصہ لے رہی تھی، پروفیسر ارم خالد نے ایکسرسائیز براس ٹیک کے بارے میں انڈیا کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے اس سے بڑی جنگی مشقیں نہیں دیکھی ہوں گی۔ بالکل ایسی ہی معلومات ایک انڈین دفاعی ویب میگزین ’ڈیفنس ایکس پی‘ میں ایک انڈین مبصر کرن بشٹ نے فراہم کی ہیں۔ جارجیا سدرن یونیورسٹی کے پروفیسر امریطس ڈاکٹر شفقت ہاشمی نے لکھا ہے کہ یہ مشقیں نیٹو کی کسی بھی فوجی مشق سے بڑی تھیں۔ ان فوجی مشقوں کا منصوبہ کس مقصد سے بنایا گیا؟ پروفیسر ارم نے اسی ذریعے کے حوالے سے ان فوجی مشقوں کے تین مقاصد بیان کیے ہیں: کسی تصادم کے صورت میں فوجی نقل و حرکت کی اہلیت کو جانچنا یہ جاننا کہ تصادم کی صورت میں فوج لاجسٹک سپورٹ کی کتنی اہلیت رکھتی ہے؟ پاکستان کی مسلح افواج پر اپنی بالادستی ثابت کرنا ان مشقوں میں فوج کی کتنی بڑی تعداد حصہ لے رہی تھی، مختلف ذرائع نے اس کے مختلف اعداد و شمار بیان کیے ہیں۔ ڈیفنس ایکس پی نے لکھا ہے کہ تعداد چار سے چھ لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر شفقت کے مطابق یہ تعداد پانچ لاکھ تک تھی۔ رقبے کے اعتبار سے ان مشقوں کا دائرہ کتنا وسیع تھا، ڈاکٹر شفقت لکھتے ہیں کہ انڈیا کے راجستھان یعنی پاکستان کے بہاولپور اور رحیم یار خان سے لے کر پاکستان کی بحری سرحدوں کورنگی کریک تک وسیع تھا اور اسے انڈین ایئر فورس کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس آپریشن میں انڈین ایئر فورس کے جیگوار اور مگ طیاروں نے حصہ لیا۔ ان طیاروں نے مبینہ طور پر بعض اوقات پاکستان کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی بھی کی۔ برصغیر کے دو روایتی حریف ملکوں کی سرحد پر فوج کے اتنے بڑے اجتماع پر عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ شروع سے ہی مرکوز ہو گئی جس نے اسے ’جنگ پر اُکسانے کی سرگرمی‘ قرار دیا۔ کرشن سوامی سندرجی جو اس زمانے میں انڈین فوج کے سربراہ تھے اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا یہ سرگرمی ہمیشہ سے ہی تربیتی مقاصد کے لیے تھی۔ پھر ان مشقوں کے بارے میں متضاد قسم کے تاثرات کیسے مضبوط ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ اس سوال کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں۔ کیا انڈین افواج اتنے بڑے پیمانے پر اتنے دور رس اثرات رکھنے والی یہ مشقیں حکومت کی اجازت سے کر رہی تھی؟ انڈیا جیسے ملک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ فوج حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی قدم اٹھائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن انڈیا کے ممتاز اور ریٹائرڈ فوجی کمانڈر پی این ہون کہتے ہیں کہ یہ مشقیں جن کے ذریعے پوری انڈین فوج حرکت میں آ چکی تھی اور اس کا تین چوتھائی حصہ راجستھان کے صحرا میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کو مطلع کیے بغیر موجود تھا۔ پی این ہون کا یہ انکشاف حیرت انگیز اور پراسرار ہے۔ اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان مشقوں کے بارے میں پاکستان کیا محسوس کرتا تھا؟ انڈین دفاعی مبصر لکھتے ہیں کہ سلامتی کے لیے خطرہ۔ یہی خطرہ تھا جس کے پیش نظر پاکستان نے اپنی آرمرڈ کور اور سدرن ایئر کمانڈ کو انڈین سرحد کے قریب تعینات کر دیا۔ پاکستان محسوس کرتا تھا کہ اس دوران میں اس کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی سبب سے حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کر دیا گیا اور فوج ہائی الرٹ پر چلی گئی۔ پاکستان کے نقطہ نگاہ سے یہ مشقیں کیا مقصد رکھتی تھیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی مسلح افواج کے ایک محقق بریگیڈیئر ڈاکٹر محمد اسلم خان نیازی نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے: ’سندر جی (انڈین فوج کے سربراہ) یہ خواب دیکھتے تھے کہ وہ کسی ماہر شمشیر زن کی طرح اپنا ماسٹر سٹروک کھlلیں گے، پاکستان کو دو حصوں کاٹ کر رکھ دیں گے اور انھیں اسے اس صحرا میں کچل کر رکھ دینے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان 1947 سے طاقت کا جو توازن چلا آ رہا ہے، وہ اس کا خاتمہ کر دیں گے۔‘ بریگیڈیئر اسلم کے اس خدشے کی تصدیق انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلیٹ نئی دہلی کے پروفیسر پی آر چاری کی ایک تحریر سے بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’انڈو پاکستان نیو کلیئر سٹینڈ آف‘ میں لکھا ہے کہ اصل منصوبہ یہ تھا کہ پنجاب پر حملہ کر کے اسے سندھ سے کاٹ دیا جائے تاکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حقیقت بننے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ کیا انڈین عزائم کا تعلق مشرقی پنجاب میں سکھوں کی علیحدگی کی تحریک سے بھی تھا کیونکہ یہ وہی زمانہ تھا جب پاکستان پر سکھوں کی علیحدگی کی تحریک کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ پروفیسر ارم نے پاکستانی فوج کے ایک سینیئر فوجی افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کو سزا دینا بھی تھا۔ پروفیسر ارم نے اس سلسلے میں نومبر 1986 کے بی بی سی کے ایک نشریے کا بھی ذکر کیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ انڈین قیادت جس میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور وزیر داخلہ شامل ہیں، نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ امریکی دفتر خارجہ کی تجزیہ کار ہولین الیزا نے اس سلسلے میں خیال ظاہر کیا کہ ان دنوں پاکستان کے صوبے سندھ میں صورتحال خاصی خراب تھی۔ انڈیا اس صورتحال سے بھی فائدہ اٹھانے کا خواہشمند تھا۔ ممتاز دفاعی محق رابرٹ آرٹ نے اپنی کتاب ’The Use of Force: Military Power and International Politics‘ میں لکھا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں کے نتیجے میں پاکستان کے ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات نادانستہ تھے اور نہ یہ کسی حادثے کا نتیجہ تھے بلکہ یہ جنرل سندرجی کا ایک سوجا سمجھا منصوبہ تھا۔ ’وہ چاہتے تھے کہ ان مشقوں کے ذریعے پاکستان کو مشتعل کر دیں تاکہ وہ کوئی جوابی کارروائی کرے۔ یہ کارروائی انھیں پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کر دے گی۔‘ رابرٹ آرٹ نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر جس حملے کا خدشہ ظاہر کیا، اس کی تصدیق بعض دیگر ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ ایک انڈین مصنف بنے اوپدھیایا نے ایک پاکستانی سائنسدان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان دنوں وزارت خارجہ اور وزارت دفاع میں دن رات اجلاس ہوا کرتے تھے جن میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر انڈیا کے امکانی حملے اور اس کی روک تھام پر غور کیا جاتا تھا۔ سنہ 1981 میں اس سلسلے میں پاکستان کی مسلح افواج کو مستقل طور پر یہ احکامات دے دیے گئے کہ وہ ہمہ وقت تیار رہیں اور اس قسم کے کسی بھی حملے کا رُخ موڑ دیں۔ اسی مصنف نے لکھا ہے کہ جیسے ہی براس ٹیک مشقیں شروع ہوئیں، پاکستان نے مسلح زمینی دستوں اور سدرن ایئر کمانڈ کو انڈین پنجاب کی سرحد پر تعینات کر دیا۔ اس کارروائی کے تھوڑے دن بعد پاکستان نیوی نے بحیرہ عرب کے شمالی علاقے میں جنگی جہاز اور آبدوزیں تعینات کر دیں۔ ستمبر 1987 تک حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ سرحدوں پر تعینات دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے کے نشانے پر تھے۔ اگر یہ الزام درست مان لیا جائے کہ انڈین فوج اپنے طے شدہ مقاصد کے لیے پاکستان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تو پھر فطری طور پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کم وسائل کے باوجود پاکستان انڈین منصوبے کو ناکام بنانے میں کامیاب کیسے ہوا؟ بریگیڈیئر اسلم نیازی نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی حکمت عملی بہتر تھی اور وہ نہایت خاموشی کے ساتھ اپنی فوج کو حرکت میں لے آئے تھے۔ ایک انڈین مصنف کاتنی باجپائی نے دعویٰ کیا کہ انڈین فوج کی مشقوں کی تمام تر تفصیلات پہلے ہی پاکستان حاصل کر چکا تھا۔ اس طرح اسے کئی معاملات میں آسانی حاصل ہو گئی۔ اسی زمانے کی بات ہے جب پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک رات نصف شب انڈین ہائی کمشنر ایس کے سنگھ کو طلب کیا۔ پاکستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی اُن کے منتظر تھے۔ نورانی نے ایس کے سنگھ کو خبردار کیا کہ اگر پاکستان کی سالمیت اور جغرافیائی حدود کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی گئی تو انڈیا کو ناقابل یقین نقصان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایس کے سنگھ یہ سُن کر حیرت زدہ رہ گئے اور انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ مجھے ممبئی پر ایٹمی حملے کی دھمکی دے رہے ہیں؟‘ زین نورانی نے جواب دیا کہ ’یقیناً۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے۔‘ پاکستان ایسا کیوں محسوس کر رہا تھا کہ انڈیا کی طرف سے اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب امریکی وزارت خارجہ کی دستاویزات سے ملتا ہے جنھیں چند برس قبل ڈی کلاسیفائی کیا گیا۔ ان دستاویزات کے مطابق امریکی صدر رونالڈ ریگن خطرہ محسوس کرتے تھے کہ پاکستان نے اگر یورینیم کی افزودگی جاری رکھی اور وہ مقررہ حدود سے بڑھ گئی تو اس کے نتیجے میں انڈیا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دے گا۔ اس حملے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ امریکی صدر نے یہ اطلاع نان پیپرز اور ایک خط کے ذریعے جنرل ضیا الحق تک پہنچا دی تھی۔ پاکستان میں یہ سنسنی ایک اور وجہ سے بھی پیدا ہوئی۔ پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ میں وسط جنوری میں ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پنجاب کے علاقوں میں انڈیا کے ساتھ لگنے والی سرحد سے اپنی فوج ہٹا لے۔ پاکستان نے یہ فوج راجستھان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں انڈین فوج کے غیر معمولی اجتماع کے بعد تعینات کی تھی۔ انڈیا کے اس مطالبے کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا اور یوں پاکستان کی بری اور فضائی افواج فوری طور پر ہائی الرٹ پر چلی گئیں۔ کشیدگی میں مزید اضافہ ایک اور اطلاع نے کیا۔ سیاسی اور دفاعی امور کے ممتاز پاکستانی ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے لندن سے شائع ہونے والی کتاب ’پاکستان اینڈ جیو سٹریٹیجک انوائیرمنٹ‘ میں اس اطلاع کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر رضوی کے مطابق جنرل سندرجی نے حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ مشقوں کے دوران ایٹمی میزائل بھی استعمال کیے جائیں۔ ان مشقوں پر پاکستان نے جو ردعمل ظاہر کیا، یہ اطلاع اس سے مطابقت رکھتی ہے اور اُن اطلاعات کی تردید کرتی ہے کہ وزیراعظم راجیو گاندھی ان مشقوں سے بے خبر تھے۔ راجیو گاندھی کا بے خبر ہونا اس لیے بھی قرین حقیقت نظر نہیں آتا کیونکہ وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ وزارت دفاع کا محکمہ بھی ان کے پاس تھا۔ ان اطلاعات کے بعد خطے میں جنگ کے بادل چھا گئے جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے گئے۔ ممتاز امریکی سفارتکار ڈینس کک نے لکھا ہے کہ ان اطلاعات کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے درمیان رابطے ہوئے تاکہ اس بحران کو ٹالا جا سکے۔ انھوں نے اس سلسلے میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کے جنرل ضیا الحق اور راجیو گاندھی کے ساتھ ٹیلی فون رابطوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صدر ریگن نے دونوں رہنماؤں پر زور ڈالا تھا کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ کریں۔ یہ پس منظر تھا جن میں جنرل ضیاالحق نے سنہ 1987 میں انڈیا کے دورے کا فیصلہ کیا اس دورے کے بارے میں بتایا گیا کہ انھیں اس کی دعوت انڈین کرکٹ بورڈ نے دی تھی۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی کو جب اس دورے کی اطلاع ہوئی تو وہ ان کا استقبال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے لیکن قریبی مشیروں اور حزب اختلاف کے مشورے پر انھوں نے ان کے خیر مقدم کا فیصلہ کر لیا لیکن ان کے انداز میں سرد مہری تھی اور گرم جوشی نام کو نہ تھی۔ بہرام مینن لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا نے راجیو گاندھی کا رویہ محسوس کیا لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھی۔ عین اس وقت وہ جے پور روانگی کے لیے اٹھے، انھوں نے بہرام مینن کی موجودگی میں راجیو گاندھی کو مخاطب کیا اور کہا ’تم پاکستان پر حملہ (بہرا مینن نے Invade کے الفاظ استعمال کیے ہیں) کرنا چاہتے ہو، ٹھیک ہے کرو لیکن یاد رکھنا ( اس حملے کے بعد) دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ جنگ روایتی نہیں ایٹمی ہو گی۔‘ ’ہو سکتا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے لیکن مسلمان دنیا میں موجود رہیں گے کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کے بہت سے ملک ہیں۔ رہ گئے ہندو تو یاد رکھنا، اس تباہی کے نتیجے میں ہندوستان مٹ گیا تو دنیا بھر سے ہندوؤں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اگر تم نے میری واپسی سے قبل اپنی فوج کو واپسی کا حکم نہ دیا تو پاکستان پہنچتے ہی میرے منھ سے ایک ہی لفظ نکلے گا، فائر۔‘ بہرام مینن نے ’انڈیا ٹوڈے‘ میں لکھا کہ ’اس لمحے میں نے جنرل ضیا کی طرف دیکھ کر سوچا کہ یہ شخص برصغیر کو راکھ کے ڈھیر میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘ سابق وفاقی وزیر راجا ظفر الحق جنرل ضیاالحق اور راجیو گاندھی کے درمیان اس ملاقات اور اس دوران مکالمے کی تصدیق کرتے ہیں البتہ ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کرتے جو بہرا مینن بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جنرل ضیاالحق نے راجیو گاندھی کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات ذاتی طور پر انھیں بتائی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’راجیو گاندھی رخصت کرنے کے لیے جب اٹھے تو جنرل ضیا الحق نے ان سے کہا کہ آپ ذرا میری بات سُن لیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے میزبان کو ایک طرف لے گئے اور ان سے کہا کہ ‘جو کچھ’ آپ کے پاس ہے، وہی کچھ ہمارے پاس بھی ہے یعنی ایٹمی اسلحہ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ جنرل ضیا نے مجھے بتایا کہ یہ سُن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔‘ راجا ظفر الحق بہرا مینن کے اس بیان کو درست نہیں سمجھتے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جنرل صاحب نے اس موقع پر بعض تاریخی شخصیات کا حوالہ دیا یا یہ کہا کہ برصغیر کی تباہی کی صورت میں اس دنیا میں مسلمانوں کا وجود تو برقرار رہے گا لیکن ہندو اس کرہ ارض سے مٹ جائیں گے۔ جنرل ضیا کے دورہ انڈیا کے بعد صورتحال بدل گئی۔ 27 فروری کو انڈیا کا سرکاری وفد اسلام آباد پہنچ گیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کی افواج کشیدگی سے پہلے کی پوزیشن پر چلی گئیں۔ فوجوں کی واپسی کے بعد انڈیا نے بعض اضافی اقدامات بھی کیے۔ بیرونی صحافیوں اور سفارتکاروں کو راجستھان کے دورے پر مدعو کیا گیا تاکہ انھیں بتایا جا سکے کہ انڈیا جارحیت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمران کے اس غیر معمولی دورے کے بارے میں امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے رچرڈ ونٹراب نے ایک دلچسپ رپورٹ لکھی۔ انھوں نے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور انڈیا کی مسلح افواج سرحدوں پر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں، پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیا الحق 68 رکنی وفد کے ساتھ انڈیا پہنچ گئے۔ بظاہر ان کا یہ دورہ کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لیے ہے تاہم انڈین حکام یہ خیال تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں کسی پیشرفت کا باعث بن سکتا ہے۔‘ اس کے برعکس اس دورے کے ذریعے جسے ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کا نام دیا جا رہا ہے، پاکستان انڈیا پر سفارتی سبقت حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ خود جنرل ضیا الحق نے اپنی پہل کاری کو ’کرکٹ برائے امن‘ کا نام دیا تھا۔ اس واقعے کے برسوں بعد معروف مبصر سوتک بسواس نے بی بی سی کے لیے ایک رپورٹ میں جنرل ضیا کے ایک جملے کا ذکر کیا۔ جنرل ضیا نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم انڈیا کے باؤنسر کے مقابلے میں میرے چھکے کو نظر انداز کیوں کرتے ہو؟‘