اصل کھیل تو موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوگا،اپوزیشن جماعتیں کیسے ایک دوسرے کو مفادات کے لیے دھوکہ دے رہی ہیں؟؟؟چشم کشاء انکشافات سامنے آگئے

لاہور(قدرت روزنامہ)سینئر صحافی ایس اے زاہد اپنے کالم میں لکھتے ہیں امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد مارچ کے دوسرے ہفتے میں پیش ہو جائے۔ مبینہ طور پر مسلم لیگ (ق) اور ترین گروپ کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر پاکستان پیپلز پارٹیاور جے یو آئی نے نہ صرف آمادگی ظاہر کی ہے۔ بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کو اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو بھی اس پر جلد آمادہ کر لیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق، اس بارے میں شہباز شریف کے ساتھ بات چیت بھی کی گئی ہے اور جواب دینے کے لیے انہوں نے کچھ وقت مانگا ہے، امید ہےکہ آ ئندہ دو تین دن میں وہ جواب دے دیں گے۔

وزیراعظم کا عہدہ پہلے پیپلزپارٹی کو دینے پر مسلم لیگ (ن) آمادہ تھی لیکن اب پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو دی جائے تو وزیراعظم مسلم لیگ سے ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف چونکہ پہلے تحریک اعتماد لانے پر اتفاقِ رائے ہوچکا ہے، اس لیے ممکنہ طور پر اسپیکر قومی اسمبلی پیپلزپارٹی کی طرف سے ہوسکتا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا تو طے ہے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے مؤاخذے پر بھی بات چیت ہورہی ہے اور مبینہ طور پر ایسا ہونا بعید از قیاس بھی نہیں ہے لیکن دوسری طرف مارچ کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کا بھی امکان ہے۔ یہ فیصلہ نہایت اہم ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر اس کے اثرات تحریک عدم اعتماد وغیرہ پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے علاوہ بھی ایسی صورتحال ہوسکتی ہے۔
کہ تحریکِ عدم اعتماد کی نوبت ہی پیش نہ آئے کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی خاصی تعداد نے جوکہ فی الوقت 24 پر مشتمل ہے، اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) سے اپنے معاملات طے کرلیے ہیں۔کچھ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الٰہی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان اراکین کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ تجویز ہے کہ حکمران جماعت کے یہ اراکین اسمبلی اجلاس میں جو عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے بلایا جائے گا اس میں اپنے استعفے پیش کریں، اس کے بعد اجلاس سے واک آؤٹ کریں یا نہ کریں۔ عین اسی وقت اپوزیشن وزیراعظم سے کہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ پھر وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو جائے گا لیکن کیا حکومت یہ سب کچھ کرنے دے گی۔ اجلاس کے بارے میں پہلے سے ہی کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی ہال کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے، اس لیے وہاں اجلاس کا انعقاد مشکل ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ بھی کہا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ آئینی طور پر اسمبلی کا اجلاس کہیں اور منعقد ہوسکتا ہے یانہیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دن کوئی اِدھر اُدھر بھی ہو جائے لیکن اس صورت میں بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کا منصوبہ ہے کیونکہ یہ ایک آئینی عمل ہے اور اس کو کسی طور پر روکا نہیں جاسکتا۔اگر مذکورہ بالا حالات کو دیکھا جائے تو حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔
جیسا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن متحرک ہے تو سو ہم بھی نہیں رہے لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے یا حکومتی جماعت کے اراکین کے استعفے پیش ہو جائیں تو حکومت کے پاس وہ کون سا آپشن ہے جس کی بنا پر وہ خاموش ہےتو وہ آپشن صرف ایک ہی ہے کہ وزیراعظم کو چونکہ پارلیمنٹ کی طرف سے اعتماد حاصل نہیں اس لیے وہ اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے اس لیے حکومت ان اداروں کے ذریعے جو وزیراعظم کے ماتحت ہیں اس تحریک کو پیش کرنے کیلئے اجلاس بلانے کی تاریخ مقرر ہونے کے فوری بعد یا اس سے قبل بڑے پیمانے پرگرفتاریاں شروع کردے۔ جن میں بعض اہم شخصیات بھی شامل ہوسکتی ہیں تاکہ عدم اعتماد کی تحریک وغیرہ تک بات ہی نہ پہنچ سکے۔ لیکن یہ ملک میں افراتفری ہی پیدا ہوگی۔ اپوزیشن اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اور صدر مملکت کے مؤاخذے کی تحریک پیش کردے اور دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو جائے تو حکومت کیلئے حالات پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے مزاج کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس وقت تک حکومت نہیں چھوڑیں گے تاوقتیکہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں کہنے والے وزیر، مشیر اور غیر منتخب لوگ غائب نہ ہو جائیں۔
ایک بات صاف نظر آرہی ہے اور علم الاعداد کے مطابق بھی حالات پرسکون نہیں رہیں گے۔ خدشہ ہے کہ معاملات سیاسی تصادم کی طرف نہ چلے جائیں۔ البتہ اس تمام صورتحال میں نظام کی تبدیلی کو بھی یقینی طور پر سمجھنا چاہئے جس پر ایک دو کے علاوہ کئی اہم سیاستدان شاید یقین نہ رکھتے ہوں۔ اصل کھیل تو موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوگا۔ کئی لوگ شاید بیرونِ ملک جانے کے لیے تیار ہو رہے ہوں۔روس نے بالآخر یوکرین پر حملہ کردیا۔ اور عین اس وقت جب وزیراعظم عمران خان روس کے ایک بے موقع و بے محل دورے پر وہاں موجود ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ اس سال عالمی جنگ کا خطرہ ہے جو مغرب سے شروع ہوگی۔ روس کا یہ حملہ اسی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اور ایسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ نہ صرف بے موقع اور بے سود ہے بلکہ اس سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔