وزیر اعظم عمران خان کیساتھ شیخ رشید بھی مشکل، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو اپوزیشن کا نیا لائحہ عمل کیا ہوگا؟؟؟
لاہور(قدرت روزنامہ)مشتاق احمد قریشی اپنے کالم میں لکھتے ہیں وزیرداخلہ شیخ رشیداحمد نے کہا ہے کہ اپوزیشن ہوش کے ناخن لے، اس کی’ بیوقوفی ‘سے کوئی’ بڑاحادثہ‘ ہو سکتا ہے، کوئی انتشار و خلفشار پیداہوا تو اپوزیشن اس کی ذمہ دار ہو گی، اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد کا شوق پورا کرلے، عمران خان سرخرو ہوں گے،اسلام آباد میں جدید کرکٹ اسٹیڈیم، 3 نئے بڑے اسپتال، خواتین کا بازار اور پولیس کا جدید خدمت مرکز بنایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔شیخ رشید احمد ایک عرصہ سے اپنے حلقۂ انتخاب سے کامیاب ہو رہے ہیں لیکن اس بار ایسا نظر نہیں آرہا کہ عوام کی نظرِ انتخاب ان پر ٹھہرے گی کیونکہ عوام کی جو درگت بن رہی ہے اسے دیکھ کریوں لگتا ہے کہ شاید اس بار انہونی ہوجائے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ’ کوئی مقابل نہیں دور تک ‘۔مقابلہ تو وہ ہمیشہ کی طرح خوب کریں گے لیکن عوام کے پاس کیا لے کرجائیں گے؟ کون سا نیا وعدہ کریں گے فی الوقت کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ راولپنڈی اسلام آباد کا موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔ موصوف کئی بار نہیں درجنوں بار’ تکیہ کلام ‘کے طور پر شاید یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ مارچ میں کچھ نہیں ہوگا، اگلے دو ماہ انتہائی اہم ہیں، اللہ خیر کرے۔اب کی بار انہوں نے کہا ہے کہ کہ اپوزیشن ہوش کے ناخن لے، اس کی’ بیوقوفی ‘سے کوئی’ بڑاحادثہ‘ ہو سکتا ہے، کوئی انتشار و خلفشار پیداہوا تو اپوزیشن اس کی ذمہ دار ہو گی، اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد کا شوق پورا کرلے، عمران خان سرخرو ہوں گے۔اس سے بڑا کوئی اور حادثہ کیاہوگا کہ مسلسل ساڑھے تین سال سے عوام رو ز جی اور مررہے ہیں پھر بھی زندگی کی سانسیں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اب وزیر اعظم کے بقول ڈرون حملے نہیں ہوتے لیکن روز مہنگائی کا جو ڈرون حملہ ہوتا ہے وہ اس ڈرون سے کیا کم ہے
کہ لوگ کبھی جیتے اور کبھی مرتے ہیں، ان ڈرون حملوں میں لوگوں کی قوتِ خرید ختم ہوکررہ جاتی ہے، لوگ معاشی طور پر شہید ہوتے ہیں کیوں کہمہنگائی کے اِن ڈرون حملوں میں روح، انااورعزتِ نفس مجروح ہوتی ہے، دکاندار سے منہ چھپاکر گزرنا پڑتا ہے۔اور سنیں موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے اگر اپنے کارڈ چھپائے ہوئے ہیں تو یاد رکھیں کہ عمرا ن خان اپنے کارڈ چھاتی سے لگا کر کھیلتاہے۔ اپوزیشن جتنی مرضی ملاقاتیں، باتیں اور گزارشات کرتی رہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔ عام انتخابات میں ایک سال رہ گیا، کئی شہروں میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ بعض جگہ پر تو امیدواروں کے بینرز بھی لگ گئے ہیں۔اپوزیشن اگر تحریک عدم اعتماد لائے گی تو پھنس جائے گی، اس لیے عقل کے ناخن لے ایسا نہ ہوکہ اس کی بیوقوفی کی وجہ سے ملک کسی مشکل صورتحال میں پھنس جائے۔ ان کا یہ بھی ہمیشہ کی طرح کا دعویٰ تھا کہ اگر کسی قسم کا انتشار ہوا تو فوج حکومت کے ساتھ ہے۔پاک فوج ملک کے معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے اور اسے ملکی سا لمیت، مستقبل اور قومی معاملات کا بخوبی ادرا ک ہے۔ کسی باخبر ذریعے کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں کہ اب’ باخبر ذرائع ‘کی خبر پر پورے پانچ سال قید کی سزاہے اور یہ باخبر ذرائع کا جرم بھی ناقابلِ ضمانت قرار دیا جاچکا ہے، سو اپوزیشن کو مفید، مفت مشورہ یہی ہے کہ اسےکسی
صورت بھی انتشار پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ لانگ مارچ کریں پرامن رہیں۔عوام کو بتائیں ان کا دل جیتیں اور آنے والے عام انتخابات کی تیاری کی ریہرسل کریں کیونکہ سوا سال یوں گزر جائے گا کہ پتہ ہی نہیں چلے گا۔ کون کس کے ساتھ ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔جیسا کہ اس سے قبل بھی عرض کیا ہے کہ راول پنڈی اور اسلام آباد کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ کل تک جو ایک دوسرے کے گلے پڑتے تھے آج پائوں پڑ رہے ہیں۔ سیاست میں بالخصوص پاکستانی سیاست میں اصول، ضابطے اور اب اخلاقیات کے سوا سب کچھ ہی چلتا ہے۔ ہر بار بے وقوف بننے والے ہر بار ماموں بن جاتے ہیں۔ چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں، امیدیں باندھ لیتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال روتے رہتے ہیں۔شیخ رشید کی اپوزیشن سے ایک گزارش بھی تھی اور ایک کھلی آفر بھی، گزارش یہ کی کہ23مارچ کو کوئی سرگرمی نہ کریں کیونکہ اُس روز یومِ پاکستان پریڈ بھی ہونی ہے اور اسلام آباد میں 22 اور 23مارچ کو او آئی سی وزرائےخارجہ کانفرنس ہے اور آفر یہ کی کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتمادلانا یا احتجاج کرناچاہتی ہے تو شوق سے کرے، اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی تحریکیں چلتی ہیں تو نتیجہ اپنی خواہشات کے مطابق نہیں ملتا۔ تحریکِ عدم اعتماد میں بھی اپوزیشن کو ناکامی ہو گی۔اپوزیشن ساڑھے تین سال سے لگی ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانی ہے تو پہلے اپنے نمبرپورے کرلیں، ایسا نہ ہوکہ بعد میں الزام لگائیں کہ فون آ گیا یا کورونا کی وجہ سے بندے نہیں آ سکے۔
بات سیدھی اور صاف ہے عدم اعتماد اپوزیشن کا حق ہے پہلے بھی عدم اعتماد کی تحریکوں کا جو حشر ہوا ہے وہ ان کے سامنے ہے۔ لگتا نہیں کہ عدم اعتماد کی بیل منڈھے چڑھے گی کیونکہ پہلے قومی اسمبلی میں حکومت نےآئی ایم ایف کے احکامات کی روشنی میں مطلوبہ بل پاس کرالیے پھر سینیٹ میں ا پوزشن اقلیت بن کررہ گئی اور میدان حکومت کے ہاتھ رہا، اس سے بھی عبرت نہیں پکڑی گئی تو ایک اور کاری وار ہوگیا اور چند روز قبل تین بل سینیٹ سے منظور کرواکر حکومت نے ایک بار پھر اپنی ’پارلیمانی طاقت‘ دکھادی۔اگر اپوزیشن نے نمبر گیم پوری کرلی تو پھر بھی وسیع تر قومی مفاد میں شاید کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ یوں بھی اتنا ملبہ جمع ہوچکا ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے پر بھی ہاتھ کچھ نہیں آئیگا ایک ڈیڑھ سال میں نہ تو مہنگائی کم یا ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جاسکتی ہیں۔