وقت پڑا تو امریکہ نے پاکستان کے بجائے انڈیا کا ساتھ دیا… پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے میں ’نیوٹرل‘ کیوں ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔
گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔
اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔
جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی سے کہا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔
پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ‘سیاسی دھڑے’ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔
دھڑوں کی سیاست سے ’نیوٹرل‘ ہونے تک
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔
‘اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔’
اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو 2021 میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے سے کچھ ماہ قبل ہی پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے متعدد بیانات میں واضح کیا کہ پاکستان افغانستان میں کسی قسم کی خانہ جنگی کا حصہ نہیں بنے گا۔ 1990 کی دہائی میں جہاں پاکستان پر افعانستان کو بطور ‘سٹریٹیجک بیک یارڈ’ استعمال کرنے کا الزام لگتا رہا وہیں حالیہ بیانات سے ایسا لگا کہ پاکستان اب ان القابات سے دور رہنا چاہتا ہے۔
اس دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے متعدد بار امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ‘صرف جنگ کے لیے استعمال کیے جانے اور تمام تر مدد کے بعد انڈیا پر نظرِ کرم رکھنے’ جیسے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
ماضی میں پاکستان ناصرف خطے اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی دھڑوں کا حصہ رہا بلکہ یکطرفہ مؤقف بھی اختیار کرتا رہا۔
ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ‘امریکہ کی حمایت اور ان کا ساتھ دینے میں پاکستان خاص طور پر پیش پیش رہا۔ اس کے نتیجے ہمیں (پاکستان کو) نقصان ہی ہوا۔ اور نہ ہی امریکہ نے ضرورت پڑنے پر ہمارا ساتھ دیا۔’
اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ ہے جس کے نتیجے میں ماہرین اور دیگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی حمایت میں ’اتنا آگے نکل گیا‘ کہ اسے نقصان اٹھانا پڑا۔
مشاہد حسین نے کہا کہ ‘حالانکہ ہماری سوویت یونین سے دشمنی نہیں تھی، ہمارا مسئلہ تو انڈیا کے ساتھ تھا۔’
لیکن امریکہ کی حمایت میں پاکستان 1954 میں سئیٹو کا حصہ بنا، پھر 1955 میں سینٹو جوائن کیا۔ 1959 میں امریکہ کو بڈھ بیڑ میں اڈّہ بھی دے دیا گیا اور پاکستان نے براہِ راست فریق کا کردار ادا کیا۔
مشاہد حسین نے کہا کہ ‘لیکن جب پاکستان کو ضرورت پڑی تو امریکہ نے پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے انڈیا کا ساتھ دیا چین کے خلاف۔ اور جب 1965 کی جنگ ہوئی تو امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کردی تھی۔ تو ہمیں حمایت کے صلہ کچھ یوں ملا۔’
1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کا ساتھ دیا۔ اور ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب 1989 میں روسی فوج افعانستان سے شکست کھا کر نکلی تو 1990 میں پاکستان پر پریسلر امینڈمنٹ کے ذریعے فوجی امداد بند کر کے پابندی عائد کی گئی۔ اور اس پابندی کے پیچھے وجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بتایا گیا۔
مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ ‘ان پابندیوں کی وجہ یہی تھی کہ امریکہ کی ضرورت پوری ہوچکی تھی۔ ان تلخ تجربات کی بنیاد پر پاکستان نے اب سبق سیکھ لیا ہے کہ نہ تو فضول جھگڑوں میں پڑا جائے اور نہ ایسی دشمنیاں لیں جن کا ہمارے مفادات سے تعلق نہیں ہے۔’
یوکرین روس کا ہدف کیوں ہے؟
روس ایک عرصے سے یوکرین کی یورپی اداروں میں شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے جن میں امریکہ کی سربراہی میں قائم 30 ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین دونوں شامل ہیں۔
یوکرین کی سرحدیں یورپی یونین اور روس دونوں سے ملتی ہیں۔ سابق سویت یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کے روس کے ساتھ گہرے ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں اور یہاں روسی زبان وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ لیکن سنہ 2014 میں جب سے روس نے اس خطے پر حملہ کیا ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
صدر پوتن نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین مغرب کی کٹھ پتلی ہے اور کبھی بھی باقاعدہ طور پر ایک ملک نہیں رہا ہے۔
روس کا بڑا مطالبہ رہا ہے کہ مغربی ممالک یہ ضمانت دیں کہ یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے گا۔
’سرد جنگوں کا حصہ بننا اب پاکستان کے مفاد میں نہیں’
ماضی کی دہائیوں کے برعکس پاکستان کی سوچ میں اب خاصی تبدیلی آئی ہے اور سفارتی حلقوں سے ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کسی دھڑے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اسی سسلسلے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے 28 فروری کو قوم سے خطاب کے دوران 24 فروری کو اپنے روس کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں وہاں دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی غرض سے گیا تھا۔’
اور اس دوران روس اور یوکرین کے تنازعے کے بارے میں وزیرِ اعظم کا کوئی بیان بھی سامنے نہیں آیا تھا۔
مشاہد حسین نے بتایا کہ اس وقت پاکستان کے مفادات اس خطے میں ہیں۔ اور اس خطے سے مراد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، افغانستان، ایران، چین اور روس۔
انھوں نے کہا کہ ‘ان ممالک سے ہم تعلقات بھی بڑھانا چاہتے ہیں اور ان مفادات کا تعلق علاقائی امن اور استحکام، سلامتی اور ترقی سے ہے۔ سرد جنگوں کا حصہ بننا اب پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔’