پنجاب

بلاول بھٹو کا “لانگ مارچ” حکومت گرانے کے لیے یا بچانے کے لیے؟؟نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا

لاہور(قدرت روزنامہ)سینئر صحافی علی احمد ڈھلوں اپنے کالم میں لکھتے ہیں اقتدار حاصل کرنے کی تیزیاں اور اقتدار بچانے کی پھرتیاں دونوں اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں، اپوزیشن اپنے پتے کھیلنا چاہ رہی ہے جب کہ سرکار اپنے پتے، حکمرانوں کے پاس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ’’کرپشن‘‘ کا نعرہ سب سے بڑا ہتھیار ہے،
جب کہ اپوزیشن کے پاس حکومت کی ناقص کاکردگی کا ہتھیار موجود ہے۔دھر 2023کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، تمام جماعتیں نئی حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک حکمت عملی پیپلزپارٹی نے بھی ترتیب دی ہے، اور وہ ہے عوامی رابطہ مہم۔ عوامی رابطہ مہم میں پہلی ’’فلائٹ‘‘ لانگ مارچ سے شروع ہو چکی ہے۔ جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری خود کر رہے ہیں، یہ لانگ مارچ اتوار کو مزار قائد کراچی سے شروع ہوا اور8مارچ کو اسلام آباد پہنچ کر حکومت پر ’’حملہ‘‘ کرے گا۔ یہ لانگ مارچ 35شہروں سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے جواب میں تحریک انصاف نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سرکردگی میں حکومت سندھ کے خلاف ’’سندھ حقوق مارچ‘‘شروع کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ 2023کے انتخابات کے بعد سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی۔ مطلب ہر کوئی عوام کے سامنے اپنے آپ کو ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو آخر عوام کی اس قدر یاد کیوں ستانے لگی ہے؟ حالانکہ سندھ میں صوبے کے عوام کی خدمت پر توجہ دینی چاہیے، سندھ میںگزشتہ 15سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، لیکن سندھ کا غریب آج بھی غریب ہے، کراچی کی حالت سب کے سامنے ہے۔ وہاں نالوں یا پارکوں پر اب بلڈنگیں بن رہی ہیں، پی پی پی سب سے پہلے گھر کو تو ٹھیک کر لے، پھر مارچ بھی کر لے۔آج اگر اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور عمران خان گھر چلے جائیں تو کیا اقتدار کا چانس پیپلزپارٹی کے پاس ہے؟
ہاں سندھ میں اُس کے حکومت بنانے کے چانسز زیادہ ہوں گے، مگر سندھ تو پیپلزپارٹی کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے، تو احتجاج کیسا؟ احتجاج کس لیے؟ کیا پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت بنانا چاہتی ہے؟ وہ اپنی چند ایک سیٹوں کے ساتھ مرکز میں کیسے حکومت بنا سکتی ہے؟ اگر وہ پنجاب کا سہارا لے کر حکومت قائم کرناچا ہتی ہے تو کیا اُسے 2018 کے الیکشن کے نتائج بھول گئے ہیں؟ پہلے نمبر پر تحریک انصاف، دوسرے پر ن لیگ، تیسرے پر تحریک لبیک اور چوتھے پر پیپلزپارٹی آئی تھی۔پنجاب اسمبلی میں پی پی پی کی کل 7نشستیں ہیں، جن میں 4 رحیم یار خان، ایک ملتان میں سید علی حیدر گیلانی ، ایک چنیوٹ کی اور ایک مخصوص نشست برائے خواتین ہے۔ جب کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی صرف 6 نشستیں ہیں، جن میں راولپنڈی کی راجہ پرویز اشرف کی سیٹ، 2رحیم یار خان کی اور 3مظفر گڑھ کی ہیں اور پھر پنجاب میں 2013میں پیپلزپارٹی کو 8فیصد ووٹ ملے جب کہ 2018 میں مزید کم ہو کر 5فیصد رہ گئے۔چلیں پنجاب کو چھوڑیں کے پی کے پر آجائیں، کے پی کے میں ایک قومی اسمبلی کی نشست پی پی پی کے پاس ہے جب کہ 4صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں،اور پھر بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جب کہ اس کے بعد سندھ ہی بچتا ہے جہاں سے قومی اسمبلی کی 38نشستیں پی پی نے حاصل کر رکھی ہیں اور صوبے میں حکومت بھی انھی کی ہے۔ہٰذاپی پی پی کو میرے خیال میں حکومت اور تحریک انصاف سے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،
لیکن جو مسئلہ یہاں پر موضوع بحث بنایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پی پی پی کو سندھ حکومت سنبھالے 15سال ہوگئے ہیں، کیا سندھ حکومت نے کوئی ایسی مثالی کارکردگی دکھائی ہے جسے دیکھ کر ے پنجاب اور صوبوں کی عوام اپنے صوبے میں پیپلزپارٹی کو خوش آمدید کہیں؟ یا پیپلزپارٹی کی دوسرے صوبے تقلید کریں۔آخری جنرل الیکشن میں 11کروڑ ووٹروں میں سے مجموعی طور پر 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ پی پی پی پڑے۔پی پی پی کی قومی اسمبلی میں کامیابی کا تناسب صرف 17 فیصد رہا۔قومی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 12.59 فیصد رہا۔ یہ سب چیزیں ایک طرف، آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ن لیگ نے پیپلزپارٹی پر اور پیپلزپارٹی نے ن لیگ پر کرپشن، دھاندلی اور پتہ نہیں کون کون سے الزام عائد کیے ۔ اب یہ دونوں مل کر حکومت گرانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔مجھے تو لگتاہے کہ پیپلزپارٹی صرف پارٹی کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے عوامی مارچ نکالنا چاہتی ہے، جس کا حکومت کو گھر بھیجنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور پھر خبریں یہ بھی گردش کر رہی ہیں کہ جس طرح مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے مارچ نکالا اور دھرنا دیا تھا تو وہ بھی ناکام رہا تھا۔ بلاول اس قسم کے مارچ کو کامیاب بنانا چاہ رہے ہیں تو سب سے پہلے اُنہیں سندھ کو ٹھیک کرنا پڑے گا، پھر عوامی جماعت بننا پڑے گا، پھر عوامی ایشوز حل کرنا ہوں گے تب جا کر وہ عوام کے دلوں میں جگہ بنا سکیں گے۔

متعلقہ خبریں