اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اگر ہم سمجھتے ہیں کہ کھانا پینا، محض توانائی لینے، وٹامن کی رسائی اور زندہ رہنے کے لیے ہی ضروری ہوتا ہے . تاہم اب معلوم ہوا کہ ہماری غذا ہمارے جینیاتی مجموعے یعنی جینوم سے بات کرتے ہیں .
جینوم وہ مجموعہ ہدایات ہے جو ہمارے پورے جسمانی افعال کو چلاتا ہے .
تو غذا اور جینوم کے باہمی تعلق سے ہماری تندرستی یا مرض، فعلیات اور طویل عمر جیسے اہم عوامل تشکیل پاتے ہیں . یہی وجہ ہے کہ اس نئے علم کو اب نیوٹراجینومکس کا نام دیا گیا ہے . تاہم اب بھی یہ نیا شعبہ عہدِ طفلیت میں ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے .
اس کا ایک ثبوت شہد کے چھتے میں ملتا ہے . چھتے کی کارکن مکھیاں اور ملکہ مکھی کی جسامت میں کوئی فرق نہیں ہوتا . ملکہ ایک سال تک زندہ رہتی ہے اور کارکن مکھیوں کی عمر کم ہوتی ہے . اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے ملکہ مکھی رائل جیلی کے سوا کچھ نہیں کھاتی اور کارکن یا سپاہی مکھیاں محض پھولوں کے رس پر گزارا کرتی ہیں .
اس غذا سے ملکہ مکھی کے جینوم میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ بہت تندرست اور توانا ہوتی جاتی ہے . وجہ یہ ہے کہ رائل جیلی میں موجود بعض اجزا جینیاتی تبدیلی کی وجہ بنتے ہیں . اگرچہ اس عمل کو سمجھنا ضروری ہے لیکن ابتدائی خیال ہے کہ وٹامن اور بعض اجزا جب سادہ انداز میں تحلیل ہوتے ہیں تو جینیاتی سوئچ آن یا آف کرنے کی وجہ بھی بن سکتے ہیں .
اسی طرح مچھلی اور دیگر اقسام کے گوشت میں ایک جزو میتھیونائن پایا جاتا ہے جو جینیاتی سطح پر عمل کرکے خلوی تقسیم اس کے دیگر افعال پر اثرانداز ہوسکتا ہے . وٹامن سی بھی ہمارے جینوم کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتا ہے . اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد ہم غذا کی بدولت جینیاتی امراض کا علاج بھی کرسکیں گے .