کیا کرنل چاول واقعی کسی کرنل کی ایجاد ہیں؟ جانیے خوشبودار کرنل چاول کی دلچسپ کہانی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جمعہ کا دن ہو اور دسترخوان پر خوشبودار کھلے کھلے رنگوں والی بریانی یا پلاؤ کا اہتمام نہ ہو یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن مزیدار پلاؤ کھاتے ہوئے کبھی آپ نے اس چاول کی کہانی کے بارے میں سوچا ہے جس کے بہترین معیار پر ہی بریانی اور پلاؤ کا ذائقہ منحصر ہے۔

ان پر اہتمام ڈشز کو بنانے کے لئے چاولوں کی خاص قسم “کرنل باسمتی چاول“ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ ہو نہ ہو یہ چاول کسی کرنل کی ہی ایجاد ہیں کیوں کہ اس کا تو نام ہی کرنل ہے۔ آئیے جانتے ہیں کرنل چاول کے “کرنل“ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

کرنل چاول کا نام کرنل کیوں ہے؟
کرنل چاول اگرچہ کسی کرنل کی ایجاد نہیں مگر اس کو متعارف کروانے کا سہرا ضرور کرنل مختار کے سر جاتا ہے جن کا تعلق حافظ آباد میں گوجرانوالہ ڈویژن سے تھا ۔کرنل صاحب گورنر پنجاب کے ایڈیشنل ڈیپٹی کمشنر تھے اور زمینداری بھی کیا کرتے تھے۔ انھوں نے باسمتی چاول کے بیج رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کالا شاہ سے خریدے اور اپنی زمینوں میں کاشت کردئیے۔ ان کے چاول آس پاس کے علاقوں میں مقبول ہونے لگے اور پھر زمینداروں نے کرنل صاحب سے باسمتی چاول لے کر کاشت کرنے شروع کیے جس کے بعد ان چاولوں کو کرنل صاحب سے منسوب کردیا گیا۔ یوں باسمتی چاول “کرنل باسمتی چاول“ بن گئے۔

باسمتی چاول کی تاریخ
رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے ڈائریکٹر چوہدری محمد رفیق نے انڈیپنڈنٹ اردکو چاولوں کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ باسمتی چاولوں کی تاریخ سب سے پہلے چین میں ملتی ہے لیکن اس کا ذکر پہلی بار پنجاب کی مشہور لوک داستان ہیر وارث شاہ میں آیا ہے۔ ہیر وارث شاہ 1776 میں شیخوپورہ کے نزدیک چنڈیالہ شیر خان میں لکھی گئی تھی اور باسمتی چاول کا ذکر کھڑے کی بارات کے کھانے میں شامل پلاؤ اور زردے کے طور پر کیا گیا تھا۔ باسمتی چاول ہندوستان میں بھی قدیم زمانے سے کاشت ہورہے ہیں

ادارے کی تحقیق سے مختلف اقسام وجود میں آئیں
چاولوں پر تحقیق کے لئے رائس سیڈ فارم نامی ادارہ کالا شاہ کاکو میں 1926 میں بنایا گیا تھا اور اس وقت یہاں چاولوں کی 16 اقسام کاشت کی جاتی تھیں۔

سردار خان جو اس ادارے کے سربراہ تھے اس دور میں گھوڑے پر بیٹھ کر مختلف اقسام کے پودے منتخب کرتے تھے اور ان پر تحقیق کرکے انھوں نے باسمت چاولوں کی 4 نئی اقسام متعارف کروائیں جن میں سے باسمتی 370 کو آج بھی خوشبودار چالوں کی ماں کہا جاتا ہے۔