عمران خان عثمان بزدار کی تبدیلی پر رضامند ہو گئے ؟سلیم صافی نے تحریک عدم اعتماد کیلئے اپوزیشن کی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کر دیا،

لاہور(قدرت روزنامہ)اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا شور ہے اور حکومت پراعتماد ہے کہ اس مرتبہ بھی وہ اپوزیشن کو شکست دے گی جس کا اظہار فواد چوہدری اور شیخ رشید کی جانب سے برملا کیا گیا جبکہ دوسری جانب اپوزیشن بھی کافی پراعتماد دکھائی دے رہی ہے کہ اس مرتبہ کر گزریں گے ، اس صورتحال میں سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے کالم میں حیران کن اور بڑا دعویٰ کیاہے ۔مقامی اُردو اخبار ” جنگ نیوز“ میں سلیم صافی کا کالم شائع ہواہے جس میں انہوں نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے کہ اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لارہی ہے ،جو تاخیر ہوئی، اس کی وجہ قطعاً وہ نہیں جو حکومت بتارہی ہے۔ اپوزیشن ہفتہ پہلے ہی تعداد پوری کر چکی تھی اور آج بھی پوری ہے۔ تاخیر اپوزیشن رہنماو¿ں کی کچھ اپنے معاملات کی وجہ سے ہوئی یا پھر حکومت کے اتحادیوں کی سیاست کے باعث۔پاکستان کی سیاست میں بنیادی تبدیلی کی ہوائیں اس وقت سے چلنے لگی ہیں جب گزشتہ سال اکتوبر میں ایک اہم کچھ ادارے میں اہم تبادلے ہوئے اور عمران خان نے اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔

جب تبادلوں کا عمل مکمل ہوا تو اس ادارے نے غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف، زرداری اور مولانا سے رابطے ہوئے لیکن 6 برسوں سے مسلسل دھوکے کھانے کی وجہ سے وہ یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔بالآخر میاں نوازشریف، مولانا اور زرداری قائل ہو گئے کہ اگر وہ کوئی سیاسی قدم اٹھائیں گے تو ماضی کی طرح ان کا راستہ نہیں روکا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور زرداری کے اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بیرونی دوست ممالک نے بھی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں عملی طور پر بھی اپوزیشن پر مذکورہ ادارے کی غیرجانبداری واضح ہو گئی۔ چنانچہ عدم اعتماد کے لیے صلاح مشوروں کا آغاز ہوا۔جب عمران خان کو احساس ہوا کہ ان کی دھمکیاں کام نہیں دکھا رہیں تو وہ ہاتھ جو انہوں نے گریبان میں ڈالا تھا، قدموں میں لے گئے۔ ان لوگوں کے گھروں پر حاضریاں دینا شروع کردیں جنہیں پہلے دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ انہیں وہ کچھ بھی آفر کیا جو انہوں نے ان سے مانگا بھی نہیں تھا۔ بزدار کی تبدیلی پر بھی رضامند ہو گئے۔ بار بار غیرضروری ملاقاتیں بھی شروع کردیں اور اجلاس بھی بلانے لگے۔اس سے اپوزیشن کو ایک بار پھر خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں دوبارہ اکتوبر سے پہلے والی صورتِ حال تو نہیں بن رہی۔ چنانچہ وہ دوبارہ کچھ پیچھے ہٹ گئی اور ایک بار پھر غیرجانبداری کی یقین دہانی مانگی جو انہیں کروائی گئی۔اس کے بعد ایک بار پھر عدم اعتماد کے حوالے سے سنجیدہ مگر خفیہ کوششوں کا آغاز ہوا اور چند ہی روز میں پی ٹی آئی کی صفوں سے جہانگیر ترین گروپ کی صورت میں اپوزیشن کو مطلوبہ تعداد مل گئی۔ درجنوں کی تعداد میں پی ٹی آئی کے ایم این ایز مسلم لیگ (ن) کے پاس آنے لگے۔ سب سے بڑا مطالبہ اگلے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کا ہے۔ کچھ لوگوں نے زرداری سے میچ فکسنگ کرلی جبکہ خیبرپختونخوا کے کئی ایم این ایز مولانا سے ٹکٹ کے بدلے عمران خان کو چھوڑنے پر تیار ہوئے اور تو اور پی ٹی آئی کے تین سینیٹرز بھی جے یو آئی میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر سوال یہ تھا کہ عمران خان کو ہٹانے کی صورت میں متبادل کون ہو؟ پہلے فیصلہ یہ ہوا تھا کہ زرداری صاحب کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ نون لیگ کو دیں۔ یہ کام مولانا نے ایک دو دن میں کر دکھایا۔انہوں نے میاں شہباز شریف کو متبادل وزیراعظم بنوانے پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کو راضی کرنے میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کیا۔ پھر پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو راضی کرنے کا معاملہ درپیش تھا کیونکہ وہ بھی بداعتمادی کی شکار تھیں اور انہیں یہ ڈر تھا کہ ماضی کی طرح ان کے ساتھ ہاتھ نہ ہو جائے۔