ملکی تاریخ میں کوئی وزیراعظم آئینی مدت پوری نہیں کرسکا

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے دیرینہ ہدف کی تکمیل کیلئے اپوزیشن کے قائدین اور اہم رہنما اسلام آباد میں یکجا ہو رہے ہیں اور کئی ماہ سے مسلسل جاری رہنے والی عوامی جدوجہد جو اب آخری مراحل میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا .
کبھی فوجی بغاوتوں، کبھی طاقت سے سرشار صدور ، کبھی عدالتی فیصلوں کے سامنے وزرائے اعظم کو سرنگوں ہونا پڑا عمران خان کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں، انکے اقتدار کو خطرہ آئینی و پارلیمانی طاقت کے ذریعے تحریک عدم اعتماد سے .
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی ماحول میں ’’عدم اعتماد‘‘ کی فضاء بنی ہوئی ہے اور اب حکومت کی جانب سے جارحانہ بیانات اور مزاحمت کے اقدامات کی خبروں کے باوجود اپوزیشن نہ صرف پراعتماد بلکہ پرعزم بھی ہے کہ وہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تبدیلی لے آئیں گے.
یہ بات درست ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو اسکا کریڈیٹ اپوزیشن جماعتوں کو جائیگا لیکن انکی اس ممکنہ کامیابی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم پس منظر بھی موجود ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان میں کوئی بھی وزیراعظم اپنے منصب کا متعینہ دورانیہ پورا نہیں کرسکا، کبھی آئین میں کی جانیوالی ترامیم نے صدور کو اتنا بااختیار کردیا کہ وہ اس منصب پر کسی بھی شخصیت کو ناپسندیدہ ہونے کی بنیاد پر الزامات عائد کرکے اقتدار سے محروم کر دیں، کبھی آمروں نے اقتدار سنبھالنے کیلئے اپنی طاقت کو استعمال کیا، کبھی طاقتور وزرائے اعظم عدالتوں کے فیصلے بے بسی کیساتھ سر جھکائے ماننے کے پابند نظرآئے اور کبھی اپنوں کی سازشیں بھی کامیاب ہوئیں.
وزیراعظم عمران خان کم وبیش چار سال مکمل کر رہے ہیں اس تناظر میں واقعی یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کر پائینگے یا نہیں لیکن انکا معاملہ ماضی کے حوالوں سے قطعی مختلف ہے، ملک میں گڈ گورننس، مہنگائی کا بڑھتا عفریت، معاشی اور خارجہ پالیسیاں اور مختلف مسائل کے اثرات سے براہ راست عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اسلئے عوامی نمائندے ہی آئینی اور قانونی طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں حکومتی منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں،ہوسکتا ہے کہ اس عمل میں انکے اپنے بھی شامل ہوں۔