مشکل وقت میں کونسی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے میدان میں اُتر آئی؟عمران خان کی حکومت گرانے کا گھنائونا کھیل بے نقاب
کراچی (قدرت روزنامہ) پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے . انہوں نے کہا ہے کہ ہماری تمام اخلاقی سپورٹ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے ساتھ ہے .
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمام پاکستانیوں کو پتہ ہے کہ ملک میں حکومت گرانے اور حکومت بچانے کی گھناؤنی گیم چلا رہی ہے . مصطفیٰ کمال نے کہا اگر سندھ کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم جو کہ گذشتہ 40 سالوں سے پیپلز پارٹی سے سندھ کے حقوق کی علمبردار تھی آج ان ہی کے ساتھ جا بیٹھی ہے اور حکومت گرانے کی سازش کا حصہ بنی ہوئی ہے . انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ آج ایم کیو ایم کا سٹنگ منسٹر جو کہ کیبنٹ منسٹر بھی ہے وہ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان سے مل رہا ہے اور حکومت کو گرانے کے لیے منصوبے بنائے جا رہے ہیں . یہ وہی لوگ ہیں جن کو وزیراعظم نفیس کہتے تھے، جن کے میئر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں،
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اسی وجہ سے وزیراعظم کے لوگوں نے کسی کے ساتھ کچھ خاص رویہ نہیں رکھا لیکن سندھ میں پورے پاکستان میں ان کی غیر تسلی بخش کارگردگی کے باوجود اگر موجودہ حکومت کا نعم البدل ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہی ہوں گے تو اخلاقی طور پر ہم وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ آج یہ جماعتیں اپنی کرپشن بچانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لیے رضامند ہوئی ہیں . دوسری جانب وفاق میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیراعظم کے بچنے کو مشکل قرار دے دیا . ایک انٹرویومیں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج کی صورتِ حال کے بعد حکومت کا بچنا مشکل ہے، تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے لیکن وزیراعظم کا بچنا مشکل ہے . انہوںنے کہاکہ میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا مگر بہت سارے ایسے آپشن ہیں جن پر ہمیں غور کرنا چاہیے . سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس حوالے سے دیر کردی گئی ، جب سندھ میں معاملات خراب تھے تب یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا اب اس کا جواز نہیں بنتا .
. .