کراچی(قدرت روزنامہ)صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے دعویٰ کیا ہےکہ عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں رہی اور وہ اسی ماہ سابق وزیر اعظم ہوجائیں گے . قبل ازیں وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر اگر آئین کی روح کے مطابق ووٹنگ ہوجاتی ہے تو عمران خان کو عبرتناک شکست ہونے والی ہے اور وہ اگلے کچھ دنوں کے بعد اس ملک کا سابق وزیر اعظم کہلائے گا .
بلاول بھٹو کا وژن اوران کی سیاست نے عمران خان کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے . عمران خان کے خلاف
کوئی بین الاقوامی سازش نہیں ہے یہ ایک نیا چورن بیچنے چلیں ہیں . عمران خان اتحادیوں کی سپورٹ کے باوجود بھی نہیں رہے گااور اس کا احساس ان کے اتحادیوں کو بھی ہے اور کوئی بھی ڈوبتی کشتی کا سوار نہیں بنیں گے . ایم کیو ایم کی جانب سے یا ہماری طرف سے انہیں حکومت میں شامل کرنے یا وزارتیں دینے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے . البتہ اگر ہمارے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو آگے چل کر ایسا ممکن ہے لیکن فی الوقت جب یہ بات کررہا ہوں اس وقت تک ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت میں کوئی حصہ نہیں مانگا گیا ہے، میں نے ہمیشہ اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد سمیت شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ہے اور وہ وہاں سے کامیاب ہوتے ہیں . ایم کیو ایم کے دو رخ ہیں ایک عسکری ونگ اور ایک سیاسی ونگ، ہم سیاسی ونگ سے ضرور بات کریں گے لیکن ان کے عسکری ونگ سے نہ بات کریں گے اور نہ ہی ان کو تسلیم کریں گے . ان خیالات کا اظہار انہوںنے منگل کے روز پیپلز میڈیا سیل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا . سعید غنی نے کہا کہ اس وقت ملک کی جو صورتحال بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی نالائق حکومت نے جو بنا دی ہے وہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے، انہوںنے کہا کہ جہاں آئین تمام چیزوں اور باتوں کو وضاحت کے ساتھ بتاتا ہو اور اس میں کوئی کنفوژن نہ ہو، اس موقع پر کسی بھی حکومت کی جانب سے اس کی کی دھمکیوں کا آنا اور وہ اقدامات کرنے کے اعلان کرنا جو ایک آئینی عمل کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہوں یہ کسی بھی طور پر قابل قبول بھی نہیں ہیں اور یہ مکمل آئین کی خلاف ورزی ہے . سعید غنی نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر کے 1989 کے دور میں جب تحریک عدم اعتماد آئی تھی اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس عوام کی جو پذیرائی تھی آج ایسی پذیرائی پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے . انہوںنے کہا کہ اس وقت کچھ چول وزراء کی جانب سے جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے یہ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک آئینی قدم کی راہ میں بلاشبہ ایک رکاوٹ ہے . انہوںنے کہا کہ ان چول وزراء کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ کسی ایسے رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں اس دن اندر نہیں جانے دیں گے، جس کو وہ نہیں چاہتے کہ وہ جائے، 10 لاکھ کا مجموعہ لگائیں گے اور اس کے اندر سے وہ گزر کر جائے گا اور گزر کر آئے گا اور پھر ان کے گھروں اور گلیوں پر حملہ کرنے کے لئے لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں . اس سے یہ بات تو واضح ہوجانی چاہیے کہ ان کے پاس 172 ارکان نہیں ہیں . سعید غنی نے کہا کہ اگر ان کے پاس یہ تعداد ہوتی تو کبھی بھی وہ ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرتے . انہوںنے کہا کہ اس وقت جہاں جہاں عمران خان گئے ہیں، جو کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا آج ایک ایک ممبر کے اور اتحادیوں کے پاس دھکے کھا رہا ہے اور وہی اتحادی انہیں چائے پانی پلا کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ سوچ کر انہیں بتائیں گے، عقلمندوں کے لئے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں . سعید غنی نے کہا کہ عمران خان کو یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی ہے اور اسے سمجھ آگیا ہے کہ نہ تو پی ٹی آئی کے بہت بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی اس کے ساتھ ہیں اور نہ ہی اس کے اتحادی ان کے ساتھ ہے . انہوںنے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر اگر آئین کی روح کے مطابق ووٹنگ ہوجاتی ہے تو عمران خان کو عبرتناک شکست ہونے والی ہے اور وہ اگلے کچھ دنوں کے بعد اس ملک کا سابق وزیر اعظم کہلائے گا . انہوں نے کہا کہ عمران خان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جلسوں میں گالم گلوچ پر اتر آیا ہے . انہوںنے کہا کہ عمران خان جو کہتا تھا کہ میں ان کو رولائوں گا وہ نہ صر ف خود آج رو رہا ہے بلکہ دھاڑے مار مار کر رو رہا ہے اور لوگوں کے پیر پکڑ پکڑ کر رو رہا ہے اور کچھ عرصہ بعد یہ کہہ رہا ہوگا کہ مجھے نکالا کیوں ہے . سعید غنی نے کہا کہ عمران خان اگر بلاول کی اردو کا مذاق اڑائے تو ایسا ہی ہوگا کہ مجھے انگریزی نہ آتی ہو اور میں کسی کی انگریزی کا مذاق اڑائو . انہوںنے کہا کہ جس کو خود معیشت جیسا لفظ ادا نہیں کرنے آتا، جس کو روحانیت نہیں کہنا آتا، جس کو دستاویزات، خاتم النیبن نہیں کہنا آتا، جس کا نہ جغرافیہ ٹھیک ہے اور نہ ہی اردو ٹھیک ہے اور نہ دماغ ٹھیک ہے، وہ اگران باتوں پر مذاق بنانا شروع کردے جو باتیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے . انہوںنے کہا کہ میٹر بلاول بھٹو کا وژن کرتا ہے اوران کی سیاست کرتی ہے، جس نے عمران خان کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے . انہوںنے کہا کہ جس پارٹی کے لئے عمران خان کہتا تھا کہ وہ پارٹی ختم ہوگئی ہے، جس پارٹی کے لئے وہ کہتا تھا کہ وہ سکڑ کر دیہی سندھ کی پارٹی ہوگئی ہے، اب وہ کہتا ہے کہ میری بندوق کی نشست پر آصف علی زرداری ہے . سعید غنی نے کہا کہ آج کل عمران خان ہی نہیں بلکہ ان کے وزراء کی بھی زبانیں لڑکھڑانے لگی ہیں . کبھی کوئی وزیر قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے ہاتھ میں قانون لے لیتا ہے، یہ اس بات کی نشانیاں ہیں کہ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ فارغ ہوگئے ہیںاور یہ جارہے ہیں . انہوںنے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب کہہ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور جے یو آئی کا نہ نظریہ ملتا ہے، نہ ان کا جھنڈا ملتا ہے اور نہ سوچ ملتی ہے تو میں یہ ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمھارا اور ایم کیو ایم کا نظریہ ملتا ہے ؟ انہوںنے کہا کہ وہ ایم کیو ایم جس کے خلاف عمران خان لندن جاکر کیا کیا کچھ کرنے والا تھا اس کے ساتھ تمھارا کون سا نظریہ مل گیا ہے، جن کی نشستیں چھین کر پی ٹی آئی کو دلوا دی گئی اس سے کون سے نظریہ مل گیا ہے . سعید غنی نے کہا کہ سیاست میں کم سے کم قومی ایجنڈے پر جماعتیں اکٹھی ہوتی ہیں، . انہوںنے کہا کہ اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتیں جس نقطہ پر اکٹھی ہوئی ہیں وہ ثواب کا کام ہے . اس ملک کے عوام کے ساتھ بھلائی کا کام ہے . اس ملک کے اوپر جو ایک منحوس حکومت جو مسلط کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے . اس نحوست سے اس ملک کو چھڑانے کے لئے اور اس سے آزاد کرانے کے لئے ، اس سے لوگوں کی جان چھڑانے کے لئے اگر اپوزیشن کی جماعتیں اکھٹی ہوئی ہیں تو یہ نیک کام ہے، بھلائی کا کام ہے لوگوں کی بہتری کا کام ہے . انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ جب یہ نحوست اس ملک سے ہٹے گی تو یہ ساری جماعتیں الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے نظریہ اور منشور کے تحت الیکشن لڑیں گی اور پھر اس ملک کے عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور کس کو نہیں . انہوںنے کہا کہ آج کہا جارہا ہے کہ عمران خان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے اس سے بڑا کیا مذاق ہوگا . انہوںنے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اگر عالمی سازش ہورہی تھی تو وہ سمجھ میں آرہی تھی، انہوںنے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو دنیا کے بڑے لیڈروں میں سے ایک لیڈر تھا، ذوالفقار علی بھٹو تھرڈ ورلڈ ممالک کو یکجا کررہا تھا . وہ مسلم ممالک کا بلاک بنا رہا تھا . ذوالفقار رلی بھٹو اس وقت کی بڑی طاقتوں کے لئے خطرہ بن رہا تھا . جس پر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل سمیت دیگر بڑے بڑے لیڈروں کو قتل کردیا گیا . انہوںنے کہا کہ یہ بات بھی ہمیں سمجھنا ہوگی کہ جو پاکستان کے دشمن ہیں انہیں اس طرح کے نالائق حکمران پسند ہیںاور اس وقت ہمارے ملک پر نالائق اور ڈفر حکمران ہی مسلط ہیں . انہوںنے کہا کہ کسی بین الاقوامی طاقت کو عمران خان کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت نہیں ہے . سعید غنی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش نہیں ہے یہ ایک نیا چورن بیچنے چلیں ہیں . ایک اور سوال پر انہوںنے کہا کہ پیپلز پارٹی خاص طور پر اوردیگر اپوزیشن جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے ، جب سے یہ نالائق حکومت آئی ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل اس کے اندر سے غیر آئینی اور غیر قانونی مداخلت ختم ہونی چاہیئے . انہوںنے کہا کہ ہم اسی نقطے پر آگے بڑھ رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ عمران خان کے جانے کے بعد اس ملک میں الیکٹرو ریفارم اس طرح کے ہوں کہ مداخلت ختم ہو، ایک صاف و شفاف الیکشن ہوں اور اس کے نتیجہ میں جو جماعت جیت کر آئے وہ حکومت کرے، ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون ایک بڑی اپوزیشن کی جماعت ہے اور اس حوالے سے ان کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ ہو یہ ممکن نہیں ہے . ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ عمران خان اتحادیوں کی سپورٹ کے باوجود بھی چلا جائے گا اور اس کا احساس ان کے اتحادیوں کو بھی ہے اور کوئی بھی ڈوبتی کشتی کا سوار نہیں بنے گا . ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی لڑائی سے صوبہ سندھ کا برا نقصان ہوتا ہے اور خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کے شہری علاقوں میں جہاں ان کا دعوہ ہے کہ ان کا ووٹ بینک ہے اس کو بھی نقصان ہوتا ہے . انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے یا ہماری طرف سے انہیں حکومت میں شامل کرنے یا وزارتیں دینے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے . البتہ اگر ہمارے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو آگے چل کر ایسا ممکن ہے لیکن فی الوقت جب یہ بات کررہا ہوں اس وقت تک ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت میں کوئی حصہ نہیں مانگا گیا ہے . ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ گورنر سندھ حکومت کا حصہ نہیں ہے اور گورنر پیپلز پارٹی نہیں لگا سکتی ہے . انہوںنے کہا کہ جس 40 فیصد اربن کوٹے کی بات کی ہے وہ انہوں نے اپنے لئے نہیں مانگا ہے . انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے باعث شہری علاقوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے . انہوںنے کہا کہ جعلی ڈومیسائل پر سندھ حکومت کا بھی اپنا ایک موقف ہے اور ہم اس بات کو مانتے اور سمجھتے رہے ہیں کہ صوبہ سندھ میں جعلی ڈومیسائل بنتے رہے ہیں . سعید غنی نے کہا کہ اب تک ایم کیو ایم کی جانب سے جو باتیں رکھی گئی ہیں اس میں سے کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں ہے، جس کو میں ان کے سخت مخالف ہونے کے باوجود بھی یہ سمجھوں کہ وہ غلط ہے . انہوںنے کہا کہ اب تک کی جو باتیں انہوں نے سامنے رکھی ہیں وہ سب جائز ہیں . ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی ایکٹ کے حوالے سے کچھ باتیں سامنے رکھی گئی ہیں . انہوںنے کہا کہ ہم نے بلدیاتی ایکٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ترامیم کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں بل پیش کیا ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی ہے . ایک سوال کے جواب میں اہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ہم سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے لوگوں سے ڈر ہے . انہوںنے کہا کہ اسپیکر صاحب کو یقین ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم کی نشست سے ہٹ گیا تو پہلا حملہ وہ جو کرائے گا وہ اسپیکر کے گھر پر ہی کروائے گا . ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ شہید محترمہ نے لندن کی اے پی سی میں بھی کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ سے نہ ہم بات کریں گے اور نہ اس کو تسلیم کریں گے البتہ اس میں جو سیاسی ونگ ہے اور سیاسی لوگ ہیں ہم ان سے بات بھی کریں گے اور ان کو راستہ بھی دیں گے اور ان کو ساتھ بھی ملائیں گے . انہوںنے کہا کہ آج بھی ایم کیو ایم کسی دہشتگردی میں ملوث پائی گئی تو سعید غنی ضرور بولے گا کہ ایم کیو ایم دہشتگرد ی ہے . انہوںنے کہا کہ میں نے ہمیشہ اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد سمیت شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ہے اور وہ وہاں سے کامیاب ہوتے ہیں . انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم کے دو رخ ہیں ایک عسکری ونگ اور ایک سیاسی ونگ، ہم سیاسی ونگ سے ضرور بات کریں گے لیکن ان کے عسکری ونگ سے بات نہیں کریں گے .
. .