حیران ہوں جو ریفرنس دائر نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیدیا؟ جسٹس فائز کا چیف جسٹس کو خط
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے گئے لارجر بینچ پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس یکجا کرنے کے معاملے پر خط لکھا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی ہفتے کے روز درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا، حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتا۔خط میں کہا گیا ہے کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے، درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کرکے کیسے سنا جا سکتا ہے؟ درخواست 184/3 کے اختیار سماعت میں سنی جا رہی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیار سماعت ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے، بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، آٹھویں اور تیرھویں نمبرکے فاضل ججز کو شامل کیا گیا، ایسا کرکے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کیا، اہم آئینی معاملات کی سماعت کے لیے سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینےکا صوابدیدی اختیار طے کیا تھا، سابق چیف جسٹس نے طے کیا کہ سینئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔
انہوں نے چیف جسٹس کو اپنے خط میں مزید لکھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، جج کا حلف کہتا ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا، کہاوت ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا نظربھی آئے، کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ان کا خط میں کہنا ہے کہ جناب چیف جسٹس کئی مرتبہ آپ کو تحریری طور پر مطلع کر چکا ہوں، ایک بیوروکریٹ کو وزیراعظم ہاؤس سے درآمد کرکے رجسٹرار تعینات کیا گیا، عام تاثرہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو، میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے خط میں مزید لکھا کہ جناب چیف جسٹس یہ خط لکھتے ہوئے میں نے دو مرتبہ سوچا تاہم آئین کے آرٹیکل 175/3 اور 180 میں آئین سینئر ترین جج کا ذکر کرتا ہے، سنیارٹی ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے، سینئر ججز سپریم کورٹ کا بطور ادارہ تسلسل ہوتے ہیں، جہاں تک مجھےعلم ہے آپ کے تمام سابق چیف جسٹس سینئر ترین جج سے مشاورت کرتے تھے، چیف جسٹس صاحب، آپ نے اس روایت کو بھی ختم کر دیا جس کے ادارے پر برےاثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل نہیں ہیں۔