’’پی ٹی آئی کے ڈنڈابرادر فورس تیار کرنے پر افسوس ،اب جے یو آئی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے‘سپریم کورٹ کے جسٹس مظہر عالم کے ریمارکس
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے معاملے پر سماعت کر رہاہے ، بینچ میں جسٹس اعجازالحسن،جسٹس مظہرعالم میاں خیل ۔جسٹس منیب اختراورجسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں ۔ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کاڈنڈابردارٹائیگرفورس بناناافسوسناک ہے،جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدارکی پاسداری کریں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اب پنڈوراباکس کھل گیاہے تومیوزیکل چیئرہی چلتی رہے گی،جسٹس منیب نے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائےگی،عدالت نے ریمارکس دیئے کیافلورکراسنگ کی اجازت دیگرترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے؟جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیاآپ پارٹی لیڈرکوبادشاہ سلامت بناناچاہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کوبادشاہ نہیں بناناتولوٹابھی نہیں بناناچاہتے۔
پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیاہے ، جس میں حکومتی جماعت کا کہناتھا کہ ووٹ اجتماعی ہے، ممبر پارٹی سے ہٹ کر ووٹ نہیں دے سکتا، اکیلا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا، اگر کوئی منحرف ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے جواب سینیٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی صدارتی ریفرنس پر اپنا جواب جمع کرادیا ہے، جواب سینیٹر فاروق نائیک کے زریعے جمع کرایا گیا۔جواب میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس آر ٹیکل 186 کے دائرہ کار میں نہیں آتا، اگر اس صدارتی ریفرنس کے تحت فیصلہ یا رائے دی گئی تواپیل کا حق بھی متاثر ہوگا۔ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرہ کار میں نہیں آتا، یہ صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں، واپس کیا جائے۔ رکن اسمبلی کے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے 63 اے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی صدارتی ریفرنس پر جواب جمع کرادیا، جواب لطیف کھوسا کے ذریعے جمع کرایا گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا مسئلہ ہے ، مناسب ہو گا کہ وکلاءاور دیگر افراد باہر چلے جائیں ۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پرصوبوں کونوٹس جاری کررہے ہیں، خیبرپختونخوااورسندھ کے ایڈووکیٹ جنرلزموجودہیں، اگررش کم نہ کیاگیاتوکسی کودلائل کی اجازت نہیں دیں گے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سکرین بھی فکس کریں گے تاکہ باہرکارروائی دیکھی جاسکے، سیاسی جماعتوں کونوٹس کیے تھے وہ آج موجودہیں، کیاصوبائی حکومتوں کوبھی نوٹس جاری کریں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بارکی درخواست میں سپیکرقومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے توصوبوں کونوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجودسیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کاحصہ ہیں۔عدالت نے صوبائی حکومتوں کوبھی صدارتی ریفرنس پرنوٹس جاری کردیئے۔ رضا ربانی نے عدالت میں کہا کہ میں نے فریق بننے کی درخواست دی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کوبعدمیں سنیں گے،بیٹھ جائیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کے حکم پر گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یوآئی اورپی ٹی آئی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یوآئی نے کشمیرہائی وے پردھرنے کی درخواست کی، کشمیرہائی وے اہم سڑک ہے جوراستہ ایئرپورٹ کوجاتاہے، کشمیرہائی وے سے گزرکرتمام جماعتوں کے کارکن اسلام آبادآتے ہیں، قانون کسی کوووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے مہم ختم کرنےکاپابندکرتاہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی، معلوم نہیں عدم اعتمادپرووٹنگ کب ہوگی،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری عمل کامقصدروزمرہ امورکومتاثرکرنانہیں ہوتا،جے یو آئی ایف کے وکیل نے کہا کہ درخواست میں واضح کیاکہ قانون پرعمل کریں گے،ہماراجلسہ اوردھرناپرامن ہوگا۔
چیف جسٹس نے جے یو آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں ،چیف جسٹس عمر عطال بندیال کے ریمارکس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یوآئی پرامن رہے تومسئلہ ہی ختم ہوجائےگا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب پہلے آپ کوسنیں گے، ہم نے سیاسی جماعتوں کوبھی نوٹس جاری کررکھے ہیں، کیاآپ سمجھتے ہیں ہم صوبوں کوبھی نوٹس جاری کریں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں صوبوں کاکردارنہیں،ہرعدالت کی صوابدیدہے،وزارت اعلیٰ کیخلاف عدم اعتمادکی تحاریک جمع نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کر دیئے ، چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رضاربانی صاحب آپ کوبھی سنیں گے،رضا ربانی نے کہا کہ میری درخواست پراعتراض عائدکردیاگیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم دیکھتے ہیں،پہلے جلسے کیخلاف کیس سن لیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے یوآئی کاجلسہ توعدم اعتمادپرووٹنگ سے پہلے ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام کوجلسے کے بار ے میں عدالتی احکامات سے آگاہ کیا، قانون کے مطابق ووٹنگ کے دوران دھرنانہیں دیاجاسکتا، قانون کہتاہے 48 گھنٹے پہلے جگہ خالی کرنی ہے،چیف عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم نے قانون دیکھناہے، انتظامی امورمیں مداخلت نہیں کرسکتے،ہم نے آئین کودیکھناہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ہدایت دے جلسے کے دوران ماحول پرامن رہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہاہے کہ ہم پرامن رہیں گے،جے یو آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست کافیصلہ انتظامیہ کوکرنے دیں،ایڈوکیٹ جنرل سمدج نے کہا کہ آئی جی اسلام آبادسے بات ہوگئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اچھی بات یہ ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طورپراپنے جواب جمع کرائیں، تحریری جواب آنے پرصدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہاہے کہ ہم پرامن رہیں گے،جے یو آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست کافیصلہ انتظامیہ کوکرنے دیں،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئی جی اسلام آبادسے بات ہوگئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اچھی بات یہ ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طورپراپنے جواب جمع کرائیں، تحریری جواب آنے پرصدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔ عدالت نے کہا کہ کامران مرتضیٰ نے پر امن دھرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کاڈنڈابردارٹائیگرفورس بناناافسوسناک ہے،جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے سے تیل نکالے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدارکی پاسداری کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے یوآئی نے کہاوہ کشمیرہائی وےپرجلسہ کریں گے،بتایاگیاجے یوآئی نے جلسے کے بعدکشمیرہائی وے پردھرنے کااعلان کیاہے، جے یوآئی کے وکیل نے کہادھرناپرامن ہوگا، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے یوآئی قانون کے مطابق مظاہرے کرے۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہاو¿س میں حکومتی ارکان نے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کاکہا،اٹارنی جنرل نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہاضمیرتنگ کررہاہے تومستعفی ہو جائیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1992 کے بعدسے بہت کچھ ہوچکا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت کچھ ہوالیکن اس اندازمیں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں،عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایاجے یوآئی ف نے درخواست دی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ ریفرنس پردی گئی رائے پرسختی سے عملدرآمدکی پابندی پردلائل دوں گا، منحرف اراکین کے ٹی وی پر انٹرویوز نشرہوئے، پارٹی منشورپرالیکشن جیتنے والاوفاداری تبدیل کر ے تواسے مستعفی ہوناچاہیے سپریم کورٹ کااس معاملے پرایک فیصلہ موجودہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ فیصلہ 1999 کاہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل اوراب 2022 ہے،آئینی ڈھانچے پردلائل دوں گا،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کاذکرہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈکلریشن پارٹی سربراہ جاری نہیں کرسکتا،اس کیلئے فورمزموجودہیں،سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیادہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 63 اےکے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں،وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے،نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،62اے کو الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا،عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی،عام شہری اور رکن اسمبلی کے ووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں،
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیا تھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں،سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ عدالت نے کہا مسلم لیگ بطور جماعت کام نہ کرتی تو پاکستان نہ بنتا،عدالت نے کہا مسلم لیگ کے ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو پاکستان نہ بن پاتا،عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں،پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہ عدالتی فیصلے میں دی گی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ایوان میں قانون سازی کرتی ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار مواقع پر اراکین اسمبلی کے لیے پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63اے لایا گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ٹکٹ لیتے وقت امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟ زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں،کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی،
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اب پنڈوراباکس کھل گیاہے تومیوزیکل چیئرہی چلتی رہے گی،جسٹس منیب نے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائےگی، انفرادی شخصیات کوطاقتوربنانے سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف 63 اے کانہیں پوراسسٹم ناکام ہونے کاہے، ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پرنہیں جاوں گا،یہ معاملہ پارلیمنٹ پرہی چھوڑناچاہیئے،عدالت نے ریمارکس دیئے کیافلورکراسنگ کی اجازت دیگرترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے؟جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیاآپ پارٹی لیڈرکوبادشاہ سلامت بناناچاہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کوبادشاہ نہیں بناناتولوٹابھی نہیں بناناچاہتے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٓآرٹیکل 62ون ایف کہتاہے رکن اسمبلی کوایمانداراورامین ہوناچاہیے، کیاپارٹی سے انحراف کرنے پرانعام ملنا چاہیے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 95کے تحت ہررکن کوووٹ ڈالنے کاحق ہے، ووٹ ڈالاجاسکتاہے توشماربھی ہوسکتاہے، حکومت کے پاس جواب ہے توعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاترہوتی ہے، سیاسی نظام کے استحکام کیلئے اجتماعی رائے ضروری ہے،عدالت نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کیلئے آرٹیکل 63 ا ے شامل کیاگیا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پرتاحیات نااہلی ہونی چاہیے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک تشریح تویہ ہے انحراف کرنی والے کاووٹ شمارنہ ہو،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیاڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمارہوسکتاہے؟ 18ویں ترمیم میں ووٹ شمارنہ کرنے کاکہیں ذکرنہیں،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کسی کوووٹ ڈالنے پرمجبورنہیں کیاجاسکتا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ضمیرکی آوازنہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں،عدالت نے کہا کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتمادکیااورحکومت بدل گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیرآرٹیکل 63اے قابل عمل نہیں ہوگا، عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈکلریشن پرکیاانکوائری کرےگا؟ کیاالیکشن کمیشن تعین کرےگاکہ پارٹی سے انحراف درست ہے یانہیں،کیاالیکشن کمیشن کاکام صرف یہ دیکھناہوگاکہ طریقہ کارپرعمل ہوایانہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کتنے وقت تک دلائل مکمل کرلیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں گا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل فل کورٹ ریفرنس ہے،جسٹس جمال مندوخیال نے کہا کہ کیاموجودہ ریفرنس کااسمبلی اجلاس سے تعلق ہے؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کوآئین کی تشریح کرنی پڑے گی،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کواسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں، کیااس ریفرنس پرفیصلے کی جلدی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا چاہتے ہیں ووٹنگ سے قبل عدالتی رائے آجائے،جسٹس عمر عطا بندیال آئینی اعتبارسے یہ اہم مقدمہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان میں دونوں گروپ بی اے پی کے دعویدارتھے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ ڈال کرشمارنہ کیاجاناتوہین آمیزہے، آرٹیکل 63اے میں نااہلی کاپورانظام دیاگیاہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کاہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہررکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجدبنالے تونظام کیسے چلے گا،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آرٹیکل 63(4) کے تحت ممبرشپ ختم ہونانااہلی ہے، آرٹیکل 63(4) بہت واضح ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63(4) واضح نہ ہونے کاہے، خلاف آئین انحراف کرنیوالے کی تعریف نہیں کی جاسکتی، جوآئین میں نہیں لکھااسے زبردستی نہیں پڑھاجاسکتا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کوبااختیاربنایاہے۔عدالت نے سماعت کیس کی سماعت کل دوپہر ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی ہے ۔