ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا یہ ووٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں۔ ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور عدم اعتماد کے روز تصادم روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے صدارتی ریفرنس پر دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب پہلے آپ کو سنیں گے۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ہم صوبوں کو بھی نوٹس جاری کریں؟خالد جاوید خان نے کہا کہ میرے خیال میں صوبوں کا کردار نہیں۔ ہرعدالت کی صوابدید ہے۔ وزارت اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں جمع نہیں ہیں۔رضا ربانی نے کہا کہ میری درخواست پر اعتراض عائد کر دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھ لیتے ہیں۔ پہلے جلسے کے خلاف کیس سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رضا ربانی صاحب آپ کو بھی سنیں گے۔ پہلے جلسے کے خلاف کیس سن لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیے تھے وہ آج موجود ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں۔ عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے۔ صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں۔
عدالت نے صوبائی حکومتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کردیے
سپریم کورٹ نے آرٹکیل 63 اے کے لیے دائر صدارتی ریفرنس میں چاروں صوبوں اور آئی سی ٹی کو فریق بناتے ہوئے صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ میں نے متعلق حکام کو جلسے سے متعلق عدالتی احکامات بارے آگاہ کیا۔ جے یو آئی ف اور تحریک انصاف نے جلسے کیلئے درخواستیں دیں۔ جے یو آئی ف نے درخواست میں دھرنے کا کہا ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ جے یو آئی ف کہتی ہے کشمیر ہائی وے پر دھرنا دیں گے۔ قانون کے مطابق ووٹنگ کے دوران دھرنا نہیں دیا جا سکتا۔ قانون کہتا ہے 48 گھنٹے پہلے جگہ خالی کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم نے قانون دیکھنا ہے۔ ہم انتظامی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔اے جی خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ہدایت دے پرامن ماحول رہے۔کامران مرتضٰی نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہا ہے کہ ہم پرامن رہیں گے۔ درخواست کا فیصلہ انتظامیہ کو کرنے دیں۔
چیف جٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ یہ آپ سے ڈرتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی۔ کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے۔ کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔
’معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی‘
خالد جاوید خان نے کہا کہ قانون کسی کو ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے مہم ختم کرنے کا پابند کرتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی۔ معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔کامران مرتضٰی نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے۔وکیل جے یو آئی نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔اٹارنی جنرل بولے جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔
اے جی سندھ نے کہا کہ ہم مطمئن ہیں۔
عدالت نے ڈی سی اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد کو کمرہ عدالت سے جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا صوبائی حکومت کا سندھ ہاؤس واقعہ پر پولیس نے بیان ریکارڈ کرا دیا۔ آئی جی اسلام آباد سندھ حکومت کے مؤقف پر قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے بتایا جے یو آئی ف نے درخواست دی کہ وہ کشمیر ہائی وے ہر جلسہ کریں گے۔ بتایا گیا جے یو آئی نے جلسے کے بعد کشمیر ہائی وے پر دھرنا کا اعلان کر رکھا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ جے یو آئی کے وکیل نے کہا دھرنا پرامن ہوگا۔ جے یو آئی قانون کے مطابق دھرنے مظاہرے کرے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد سے بات ہوگئی ہے۔ پولیس کے اقدامات سے مطئن ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر اپنے جوابات جمع کروائیں۔تحریری جوابات آنے پر صدارتی ریفرنس پر سماعت میں آسانی ہوگی۔
عدالت نے کہا کہ جمعت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضی نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ٹائیگر فورس، ڈنڈا بردار فورس بنانا افسوس ناک ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ‏جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ‏تمام جماعتیں جہموری اقدار کی پاسداری کریں۔
سپریم کورٹ کا حکومت کی ٹائیگر فورس ڈنڈا بردار فورس پر تشویش کا اظہارچیف جسٹس نے کہا کہ ہم سندھ ہاؤس واقعہ پر سندھ حکومت کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس پر دی گئی رائے پر سختی سے عملدرآمد کی پابندی پر دلائل دوں گا۔ منحرف اراکین کے ٹی وی پر انٹرویو چلے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت پارٹی منشور پر الیکشن جیتنے والا پارٹی وفاداری تبدیل کرے تو اسے استعفی دینا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ 1999 کا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے تائید کی کہ جی بالکل اور اب 2022 ہے، اٹارنی جنرل۔ میں آئینی ڈھانچے پر دلائل دوں گا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا ارٹیکل 63A کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے۔ نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے۔ ارٹیکل 62-63-63A کو الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا۔ عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیکلریشن پارٹی سربراہ جاری نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے فورمز موجود ہیں۔ ارٹیکل 63A کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں۔وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔
’جنرل ضیا نے سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعت کمزور ہو تو جمہوری نظام متاثر ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ امریکا میں صدارتی نظام کے باوجود ایک سینیٹرآزاد حیثیت سے نہیں ہوتا۔ جنرل ضیا نے سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔جسٹس جمال خان مدوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت کے ٹکٹ الیکشن جیتنے والے اور آزاد رکن قومی اسمبلی میں کیا تفریق ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد رکن کو اگر اس جماعت کا منشور قبول نہیں تو اسے پھر استعفی دے دینا چاہیے۔ پانچ سال کی اسمبلی میں اڑھائی سال بعد کشتی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
’دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ ہم سے تا حیات نااہلی مانگ رہے ہیں؟ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے؟ زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں۔ کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے۔ ایک جہاز کو ڈبو کر دوسرے میں بیٹھیں گے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63(A) اچھے برے کی تمیز کے بغیر پارٹی حکم پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے۔ اصل مسئلہ ہی یہی ہے۔ اراکین کے ادھر اُدھر جانے سے تباہی پھیلے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 63(A) اور 62 کو اکٹھا پڑھا جائے۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل بھی فلور کراسنگ میں ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی رکن یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا ووٹ پالیسی کے خلاف ہے لیکن اس سے کوئی متاثر نہ ہو۔جسٹس جمال خان مدوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم پارٹی سربراہ کو بادشاہ نہیں بنانا چاہتے۔ ہم پارٹی سربراہ کو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی کی مثال ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہاں پارٹی میں تقسیم ہوئی تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی رکن سیٹ شکریہ کے ساتھ واپس کر دے پھر کیا ہوگا؟ ایک رکن کے پارٹی کےعلاوہ اپنے بھی ووٹ ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں مداخلت کروں گا۔ رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا یہ ووٹ کی توہین ہے۔ منحرف اراکین کی نااہلی کتنی ہوتی ہے۔ نااہلی کا اطلاق کب سے شروع ہوگا۔ ہرمعاملہ پارلیمنٹ خود کیوں نہ طے کرے ہمیں اس پر دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی۔خالد جاوید خان نے کہا کہ بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کے دعویدار تھے۔ سب سے زیادہ باضمیر تو مستعفی ہونے والا ہوتا ہے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے۔ آرٹیکل 63A میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے۔ اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں۔ ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیں۔ عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس پر سماعت پر تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔