بھٹو اور کسنجر، عمران نے بھٹو کیخلاف کس ’بیرونی سازش‘ کا حوالہ دیا؟

کراچی(قدرت روزنامہ)وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنی تقریر ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف کس ’بیرونی سازش کا حوالہ دیا؟ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ایک تقریر کے دوران انہوں نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا ایک خط بھی لہرایا جس میں بھٹو کو ایک مرتبہ پھر دھمکی دی گئی تھی۔ خط لہراتے ہوئے انھوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ دیکھو مجھے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کو خطرہ ہے۔
برطانوی ریڈیو نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 27؍ مارچ کو ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بیرون ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انہیں ’لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘
عمران خان نے اپنی تقریر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی حوالہ دیا جنھیں نے 45برس قبل پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی ایک انتہائی جذباتی تقریر میں الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کے پیچھے امریکا ہے جو انھیں اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے جسے امریکا کی مالی مدد حاصل ہے تاکہ میرے سیاسی حریفوں کے ذریعے مجھے نکال دیا جائے۔‘ اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ’ویتنام میں امریکا کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے پر امریکا انہیں معاف نہیں کرے گا۔‘
بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ان کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ انھوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے کا عزم کر لیا تھا اور امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خبردار کرنے کے باوجود جب انہوں نے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا تو ہنری کسنجر نے انھیں دھمکی دی تمھیں ایک خوفناک مثال بنا دیا جائے گا۔‘
امریکی وزیر خارجہ کا یہ مبینہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی گونج رہا ہے اور پاکستان آج جن حالات کا سامنا کر رہا ہے اس میں اس دھمکی اور اس کے نتائج کا بہت بڑا کردار ہے۔
تاہم اس کے گواہ صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی ہیں جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں اور گرفتاری کے بعد بھی مسلسل چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں اور پاکستان کے مقامی صنعتکار جن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں۔
بھٹو اسی نکتے پر پاکستان کے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اس دوران انھوں نے کئی مقامات پر ہنری کسنجر کی اس دھمکی کے اپنے دعوی کو دہرایا۔ بھٹو نے اپنے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے، جس کی سربراہی مولوی مشتاق کر رہے تھے، یہ بات کہی کہ انھیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے دھمکی دی تھی۔
ہنری کسنجر کے اس جملے تمھیں ایک خوفناک مثال بنا دیں گے کی کسی آزادانہ ذرائع سے تصدیق تو نہیں ہو سکی ہے لیکن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن جیرالڈ فیورسٹین نے اپریل 2010ء میں پاکستانی میڈیا کو اپنے انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ وہ ایک پروٹوکول آفیسر کی حیثیت سے 10اگست 1976ء کو لاہور میں ہونے والی اس میٹنگ کے عینی شاہد ہیں جس میں بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں ہنری کسنجر کی وارننگ کو مسترد کر دیا تھا۔
یہ درست ہے کہ بھٹو نے اس وارننگ کو مسترد کر دیا اور ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا۔ میں اس وقت ایک پروٹوکول آفیسر تھا جب اگست 1976ء میں کسنجر پاکستان آئے تھے اور لاہور میں بھٹو سے ملے تھے۔ جیرالڈ فیورسٹین کے علاوہ امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رامسے کلارک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میں سازشی تھیوریز پر تو یقین نہیں رکھتا لیکن چلی اور پاکستان میں ہونے والے فسادات میں بڑی مماثلت ہے۔
چلی میں بھی سی آئی اے نے مبینہ طور پر وہاں صدر سیلواڈور الاندے کا تختہ الٹنے میں مدد کی۔‘ رامسے کلارک، جنھوں نے بھٹو پر چلنے والے مقدمے کو خود دیکھا تھا، لکھا کہ ایک مذاق مقدمہ جو ایک کینگرو کورٹ میں لڑا گیا۔ پیپلز پارٹی کے ابتدائی کارکنوں میں سے ایک علی جعفر زیدی جمی کارٹر دو باتوں پر پاکستان کے خلاف تھے۔
ایک ایٹمی پروگرام پر اور دوسرے انسانی حقوق کی صورتحال پر، بھٹو نے عدالت میں اپنے بیان میں بتایا کہ ہنری کسنجر نے کہا کہ اگر آپ نے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کو منسوخ، تبدیل یا معطل نہیں کیا تو ہم آپ کو ایک خوفناک مثال بنا دیں گے۔ علی جعفر زیدی نے مزید کہا کہ جس روز بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے اس کے غالباً دوسرے روز میں اور ڈاکٹر سعید شفقت پنڈی میں ایک ریسٹورنٹ کی طرف جا رہے تھے جہاں ایک صاحب نے ہمیں چائے کی دعوت دی ہوئی تھی۔
ہم صدر میں پیدل ہاتھی چوک سے ایڈورڈ روڈ کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ہی بھٹو صاحب وہاں پہنچ گئے اور اپنی کار سے باہر نکلے اور مجھ سے میرا حال احوال پوچھا۔ اتنے میں انھیں دیکھ کر لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ انہوں نے وہاں ایک چھوٹی سی تقریر کی۔ اس تقریر کے دوران انھوں نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا ایک خط بھی لہرایا جس میں بھٹو کو ایک مرتبہ پھر دھمکی دی گئی تھی۔ خط لہراتے ہوئے انھوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ دیکھو مجھے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کو خطرہ ہے۔