کس نے دی دھمکی اور کون سے ہوئے نئے انکشاف، عمران خان کی جیب میں موجود خط کی کہانی کیا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کی سیاسی صورتحال نے جہاں دنیا بھر میں توجہ حاصل کی ہے وہیں سیاسی گرما گرمی میں خط کا ذکر بھی آیا ہے، لیکن یہ قطری خط کی بات نہیں ہے بلکہ ملکی سلامتی کی بات ہے۔ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔سوشل میڈیا پر گزشتہ چند دنوں سے ایک خط کی خبر کافی وائرل ہے، جس میں بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے عمران خان کی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔اگرچہ وزیر اعظم نے باقاعدہ طور پر کسی ملک کا نام نہیں لیا ہے مگر سوشل میڈیا سمیت کئی سیاست دان ان کے اس خط کو امریکہ سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ خط میں غیر ملکی عناصر عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو سپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے، جبکہ آزاد خارجہ پالیسی بھی غیر ملکی عناصر کو ناگوار گزر رہی ہے، جس پر کہا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی اور خان صاحب کو نہیں ہٹایا گیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جبکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزراء اسد عمر اور فواد چوہدری نے اس خط کو عام نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ خط میں پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق کچھ ایسی معلومات موجود ہیں جو کہ سب کے سامنے نہیں کی جا سکتی ہیں۔البتہ خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے، اور معاملے کی سنگینی سے بھی آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ میں مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں موجود الفاظ کو دہرا سکوں۔ لیکن مرکزی بات بتاتے ہوئے اسد عمر نے بتایا کہ اس خط میں عدم اعتماد کا ذکر موجود ہے۔
اس پریس کانفرنس میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، ذوالقفار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، افغانستان کی بدلتی صورتحال پر جنرل ضیاء کے جہاز کو ہوا میں نشانہ بنایا گیا۔
تو کیا وزیر اعظم کو بھی اس قسم کی ہی دھمکی دی گئی ہے کیا؟ کیونکہ فواد چوہدری نے جس طرف اشارہ کیا ہے، ان تمام واقعات میں پاکستان کے لیڈرران کو شہید کیا گیا تھا۔ اس مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد سے پہلے کی ہے اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں عدم اعتماد کا ذکر موجود ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن اس خط کو عمران خان کی ایک چال سے تشبیہہ دے رہے ہیں جبکہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ عمران خان جاتے جاتے حکومت بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کی اسرائیلی سفارت کار اور دیگر غیر ملکیوں سے ملنے کے الزامات کو رد کیا گیا ہے۔