نور مقدم کیس میں سب سے بڑی پیش رفت ، کمرے میں داخل ہونے والے چشم دید گواہ نے اپنا بیان ریکار ڈ کردیا
پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جائے وقوعہ سے 20 جولائی کو ہی گرفتار کیا تھا جبکہ اُن کے والدین کی گرفتاری 25 جولائی کو عمل میں آئی تھی جس کے بعد ملزم کے والدین کی جانب سے ضمانت کی درخواست دی گئی تاہم وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے مقدمے میں دونوں شریک ملزمان ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا . معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ کے مطابق ملزم قتل کی واردات کے دوران اپنے بیٹے سے مسلسل رابطے میں تھے اور ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کو قتل میں شریک ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پر کافی مواد موجود ہے . عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی مواد ریکارڈ پر موجود نہیں ہے جو یہ ثابت کرتا ہو کہ ملزمان اور مدعی پارٹی میں کوئی دشمنی تھی . عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ ان دونوں شریک ملزمان (والدین) نے سنگین نوعیت کے جرم میں معاونت کی اور وہ ضمانت کے غیر معمولی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں . ناظرین اب نور مقدم کیس میں جو اب تازہ ترین پیش رفت سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس لرزہ خیز واردات کی جگہ پر سب سے پہنچنے والے تھراپی سینٹر کے ملازم جسے پولیس تلاش بھی کر رہی تھی کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے . پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ کے روز ملزم قتل کی واردات کے دوران ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے پولیس کی بجائے تھراپی سینٹر کو کال کی گئی اور انہیں بیٹے کے پاس پہنچنے کو کہا گیا جس کے بعد تھراپی سینٹر کا ملازم امجد اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ سب سے پہلے کمرے میں داخل ہوا . پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ امجد نے یہ بیان دیا ہے کہ ملزم نے اُس پر پہلے پستول سے فائر کیا اور گولی نہ چلنے پر چاقو سے حملہ کیا جس سے وہ تاحال شدید زخمی ہے تاہم پولیس نے اسے باقائدہ طور پر شامل تفتیش کرلیا ہے اور اس کا بیان بھی ریکارڈ کر کے اس بیان کی روشنی میں کیس کو مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے جبکہ اس حوالےسے کہا یہ جا رہا ہے کہ اگلے 3سے 4روز میں اہم ڈیولپمنٹ سامنے آنے والی ہے . . .