پاکستان میں کون کون سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ماہرین ماحولیات اوسط سے پانچ ڈگری زیادہ رہنے کو انتہائی بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں . بین الاقوامی ادارے مرکز برائے مربوط تربیتی پہاڑی علاقہ جات (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے مطابق گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں .


جس کی وجہ سے نہ صرف گلیشیئر جھیلیں بن رہی ہیں بلکہ وہ اپنے معمول کے وقت سے پہلے نمودار ہونے کے علاوہ پھٹ کر سیلاب کی بھی شکل اختیار کر رہی ہیں .
خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں نے بھی گلیشیئر معمول سے زیادہ پگھلنے کے سبب ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کی پیشگوئی کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں .

یاد رہے کہ محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق اس برس اپریل کا ماہ سنہ 1961 کے بعد سب سے گرم ترین ماہ رہا، مارچ اور اپریل کے ماہ اوسط سے تقریباً پانچ ڈگری زیادہ گرم رہے .
آئی سی آئی ایم او ڈی سے منسلک گلیشیئر کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق ان کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اپریل کے ماہ میں کم از کم پانچ گلیشیئرز پر جھیلیں وقت سے پہلے نمودار ہوئیں بلکہ کچھ پھٹ بھی چکی ہیں اور ان میں معمول سے زیادہ پانی چل رہا ہے . مسلسل بادلوں کی وجہ سے صرف پانچ گلیئشائی جھیلوں ہی کو ریکارڈ کیا جا سکا ہے مگر ممکنہ طور پر یہ تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے .

انہوں نے کہا ہے کہ ان پانچ گلیشیئرز جھیلوں کی سیٹلائیٹ سے حاصل کردہ رپورٹس اور تصاویر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علاقے میں موجود دیگر گلیشیئرز جھیلوں کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں .
ویسے تو اپریل کے ماہ میں اس طرح نہیں ہوتا اور گلیشیئرز جھیلیں نمودار ہونے کے واقعات جون کے مہینے یا اس کے بعد ریکارڈ کیے جاتے ہیں مگر معمول سے پانچ ڈگری زیادہ درجہ حرارت ممکنہ طور پر کئی قدرتی آفات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے .
ڈاکٹر شیر کا کہنا ہے کہ قراقرم کے علاقے کی نگر ویلی میں واقع بارپو گلیشیئر جو تقریباً 18 کلو میٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، اس میں سیٹلائیٹ کی مدد سے دیکھا گیا ہے کہ دس اپریل سے پہلے جھیل بنی ہوئی تھی اور پندرہ اپریل کے بعد وہ جھیل غائب ہو چکی تھی جس کا مطلب ہے کہ وہ پھٹ کر سیلاب کی شکل اختیار کر چکی ہے .
شیر محمد نے کہا ہے کہ ایسا دوسرا گلیشیئر آرانڈو ہے، یہ گلیشیئر بھی قراقرم کے علاقے میں واقع ہے اور اس میں ماہ اپریل میں دو جھیلیں دیکھی گئی ہیں . یک جھیل میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہو رہا ہے اور ان کے نمودار ہونے کے بعد ان کے سائز میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے .

ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا ہے کہ ریکارڈ کیا گیا تیسرا متاثرہ گلیشیئر 16 کلومیڑ پر مشتمل ہنارچی ہے جس میں پانچ اپریل کو تین جھیلیں دیکھی گئی ہیں، ایک جھیل کو پندرہ اپریل کے بعد نہیں دیکھا گیا، مطلب ہے کہ وہ بھی پھٹ چکی ہے .
ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق چوتھی متاثرہ گلیشیئر خردوپین ہے، اپریل میں ایک، دو یا تین نہیں بلکہ کئی چھوٹی بڑی جھیلیں نمودار ہوئی ہیں جس میں سے کئی پھٹ کر سیلابی شکل اختیار کر چکی جبکہ کئی اب بھی نمودار اور پیدا ہو رہی ہیں .
انہوں نے کہا ہے کہ پانچواں شیشپر گلیشئر اور اس کی جھیل ہے جو پہلے ہی خطرہ بن چکی تھی . اب اس میں پانی کا بہاؤ زیادہ تیز ہو چکا ہے اور اس جھیل کے پھٹنے سے کسی حد تک نقصانات کا اندیشہ بھی موجو دہے . ڈاکٹر شیر کا کہنا ہے کہ جب سے شیشپر جھیل خطرہ بنی ہے، اس وقت سے ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں .
گزشتہ برسوں میں یہ جھیل مئی میں 0.34 اسکوائر کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی تھی مگر اس سال اپریل ہی میں یہ 0.33 اسکوائر کلومیٹر تک پھیل چکی ہے جو کہ غیر معمولی گرمی کی وجہ سے ہوا ہے . انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اس جھیل نے 15 مئی کو پھٹ کر سیلابی ریلے کی شکل اختیار کی تھی .
گلگت بلتستان قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے سربراہ خالد سلیم کے مطابق ہمارے ماہرین نے شیشپر جھیل کے پھٹنے اور سیلابی ریلے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے اور ہم اس جھیل کے پانی پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کو صبح و شام مانیٹر کیا جا رہا ہے .
انہوں نے کہا ہے کہ جھیل اگر سیلابی ریلے کی شکل اختیار کرتی ہے تو اس سے شاہراہ قراقرم کو فوری خطرہ لاحق نہیں ہو گا اور ہم نے قبل از خطرے کا سسٹم بھی نصب کیا ہے .
ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق گلگت بلتستان میں کوئی 2500 سے زائد گلیشیئر جھیلیں موجود ہیں جبکہ قراقرم میں 19ویں صدی کے وسط سے لے کر اب تک ہندو کش قراقرم کے علاقے میں 370 جھیلوں کے پھٹنے اور سیلابی شکل اختیار کرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں . ڈاکٹر شیر نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے پورے علاقے میں جھیلیں پھٹنے اور سیلابی ریلے بننے کے 170 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جس میں سے 64 واقعات سنہ 1970 کے بعد ہوئے،جن میں سے خردوپین اور کیگر گلیشیئر سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں اور ایسے واقعات کا تناسب کوئی 32 فیصد ہے .
خالد سلیم کے مطابق گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت ایسے کوئی 16 مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے جن کو مکمل طور پر خطرے کا شکار کہا جا سکتا ہے، ان 16 میں سے آٹھ پر مختلف پراجیکٹ شروع کر دیے گئے ہیں، باقی آٹھ مقامات پر جلد ہی ایسے پراجیکٹ شروع کر دیے جائیں گے .
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی پوری دنیا میں ایک مسئلہ ہے اور سائنسدان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک پوری دنیا کے اوسط درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے مگر پاکستان اور شمالی علاقہ جات میں تو یہ اس سال ہی پانچ ڈگری بڑھا ہے . ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم تصور کر لیتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک پوری دنیا مل کر دنیا کے اوسط درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھنے دے گی تو اس کا مطلب گلیشیئرز والے مقام پر یہ درجہ حرارت 2.1 بڑھنا ہو گا جس کا مطلب ایک تہائی گلیشیئرز کا پگھل کر خاتمہ ہو گا . ‘
ڈاکٹر شیر محمد نے کہا ہے کہ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ نہ صرف حکومتیں بلکہ عوام بھی اس خطرے کا تدارک کرنے کے لیے آگے بڑھے اور مل کر فوری اقدامات کیے جائیں اور اس میں سب سے پہلے یہ کہ ایسے علاقوں میں انسانی اور مشینی عمل دخل کم سے کم کیا جائے . انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کو سولر پر منتقل کیا جائے اور سیاحت کے لیے ایکو ٹورارزم کو فروغ دیا جائے .
مقامی لوگ ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لکڑی کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی دوسرے ماحول دوست ایندھن پر منتقل کیا جائے کہ لکڑی کا ایندھن اور اس کا دھواں گلیشیئرز کے لیے زہر قاتل ہے .
اس کے علاوہ پورے خطے کو سر سبز رکھا اور بنایا جائے ،ایندھن یا بجلی وغیرہ کے تمام ذرائع کو بھی ماحول دوست بنایا جائے . ماحولیات کے لیے کام کرنے والے قانون دان ظفر اقبال ایڈووکیٹ کے مطابق خطرہ سر پر منڈلا نہیں رہا بلکہ خطرہ سامنے نظر آرہا ہے .
اپریل اور مارچ کی طرح اگر مئی، جون، جولائی یا اگست میں بھی اسی طرح درجہ حرارت بڑھا تو نہ صرف یہ کہ گلیشیئر تیزی سے پگھلیں گے بلکہ کئی اور گلیشیئرز جھیلیں نمودار ہوں گیں .
ظفر اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان علاقوں میں گلیشیئرز بہتے سونے جیسے ہیں اور ان علاقوں میں بڑھتی سیاحت اس سفید سونے کے لیے خطرہ بن چکی ہے ،ایسی صورتحال میں ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس کے نتیجے میں ایکو ٹوراررزم کو فروغ ملے اور اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے .
ڈاکٹر شیر محمد نے کہا کہ سوچیں اگر دنیا اوسط درجہ حرارت کو اس صدی کے آخر تک 1.5 ڈگری تک روکنے میں کامیاب نہ ہوئی اور خطرات کے مطابق یہ اوسط درجہ حرارت پانچ تک بڑھا تو کیا ہوگا؟انہوں نے کہا کہ فوری طور پر ہمارے دو تہائی گلیشیئرز کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا کوئی نعم البدل بھی شاید دستیاب نہ ہو .

. .

متعلقہ خبریں