عدالت نے سوشل میڈیا قوانین نظرثانی کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا قوانین کا جائزہ لینے اور اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اس میں ضروری ترامیم کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیے ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ حکومت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے متعارف کرائے گئے سوشل میڈیا قوانین کے خلاف دائر ایک جیسی درخواستوں پر دوبارہ سماعت کی۔
الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت غیر قانونی آن لائن مواد کو ہٹانے اور روکنے کے قواعد 2020 کے ذریعے متعارف کرائے گئے قوانین کو انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) جیسے بہت سے اسٹیک ہولڈرز نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا اور ان قوانین کے سخت ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے گزشتہ روز اپنے وکیل اسامہ خاور کے ذریعے عدالت میں متفرق درخواست دائر کی۔
درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں سمیت شہریوں کو قانون کے تحفظ اور آزادی اظہار اور منصفانہ ٹرائل سے متعلق ان کے بنیادی حقوق کے نفاذ کا حق حاصل ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ جمہوریت کے اصول عقیدے پر مبنی نہیں ہیں اس لیے وہ سیاست اور سیاسی زندگی کے کسی بھی شعبے میں مطلق العنانیت کے نظریے کو قبول نہیں کرتے، لہٰذا آئین سازوں نے بنیادی حقوق کو شمار کرتے ہوئے بظاہر ایسا اس لیے کیا کہ دفعات کی مناسب اور عقلی ترکیب قانون کی حکمرانی کے تحت ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کے قیام کا باعث بنے گی۔
غیر قانونی قوانین بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہیں، عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے۔جسٹس اطر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے جو مخلوط حکومت کا حصہ ہے لہٰذا مناسب ہوگا کہ حکومت اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرے اور مناسب مشاورت کے بعد ان قوانین میں ترمیم کرے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ قوانین واضح ہونے چاہئیں اور ان کا غلط استعمال کرتے ہوئے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، فرحت اللہ بابر نے یہ بھی اقرار کیا کہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جا سکتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے آبزرویشن دی کہ نفرت انگیز تقریر اور دیگر متعلقہ جرائم سے متعلق چیلنجز سمیت کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں ذہن میں رکھنا چاہیے، تاہم انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ موجودہ حکومت کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہوگا۔