عمل یوں ہے ہر نماز کے بعد اول آخر ایک بار درودشریف پڑھنا ہے پھردرمیان میں یا سبوح،یاقدوس،یاغفور،یاودود 7 مرتبہ پڑھنا ہے . یہ پڑھنے کے بعد اپنے مقصد میں کامیابی کےلیے دعا کرنی ہے . اور کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جسکا حل اسی وقت مقصود ہو جیسے کسی انڑویو میں گئے ہوئے ہیں یا کوئی کاروباری ڈیل ہو یا عدالت میں جج کے سامنے پیش ہونا ہو تو ایسی ایمرجنسی والی صورتحال میں یہ عمل اسی وقت کرسکتے ہیں . اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے . جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم، خطاکار اور سزاو عذاب کےمستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں ، خطاؤں اور سیئات سے درگزر کرنے والا . جرم ، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بجائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا . تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کے مکمل نمونہ اورآئینہ دار تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اس دعویٰ کی سب سےبڑی، روشن اور واضح دلیل و برہان ہے . چنانچہ سیرت کی تمام کتب میں ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودکھوں ، مصیبتوں ، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے ، آپ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے ، مارنے پیٹنےوالے ، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کربھینچنے اور بَل دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس جسم کوتیر وتفنگ ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہنی کوفت دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ساحر ، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے ، آپ کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کرنے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب علیہم الرضوان کوخاک و خون میں تڑپا تڑپا کر شہید کرنے والے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے پیاسے کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح،جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا بلکہ ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں . یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نےخود انہی کے دلوں میں ڈیرہ ڈال دیا . انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوشگوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے . قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت ، اجر وثواب ، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے . اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے . چونکہ غصہ کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں خون خرابہ، ق ت ل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو ودرگزر کو قرار دیا ہے . . .
(قدرت روزنامہ)ہرکام کی رکاوٹ دور کرنے کا موثر وظیفہ زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کام میں رکاوٹ آ جاتی ہے اور ہر کوشش کے باوجود وہ دور نہیں ہوتیتو اس بارے میں حضرت شاہ حکیم محمداختر،جو ایک بہت بڑے درویش تھے،ان کا مجرب وظیفہ موجود ہے انہوں نے اپنے بیان میں فرمایا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا کوئی کام نہ رکے یا کسی ظالم کے ظلم سے نجات مل جائے یا پہاڑ جیسا قرض ادا ہو جائے یا مقدمے میں کامیابی ملے غرض یہ کہ کوئی بھی نا ممکن صورتحال ہو تو بس آپ نے اس
کام سے پہلے یہ عمل کر لینا ہے . اور انہوں نے مزید یہ فرمایا کہ یہ وظیفہ ایک ہی بار کرنے سے آپ کو حیران کر دے گا یعنی پہلی مرتبہ کرنے سے انشاءاللہ اللہ پاک کی مدد حاصل ہو گی اور آپ کو کامیابی ملے گی .
متعلقہ خبریں